|

وقتِ اشاعت :   July 11 – 2017

زمینداروں اور کاشتکاروں نے کیر تھر کینال میں نہری پانی کی کمی کے خلاف بھرپور مظاہرہ کیا اور مطالبہ کیا کہ کیر تھر کینال میں پانی کے بہاؤ میں اضافہ کیاجائے ۔ انہوں نے الزام لگایا کہ کیر تھر کینال میں پانی کا بہاؤ صرف 700کیوسک ہے ۔ اس میں 2400کیوسک پانی ہونا چائیے ۔

سندھ کے آبپاشی کے افسران کا دعویٰ ہے کہ ارساIRSAنے اوپر سے پانی کے بہاؤ کو کم کیا ہے یعنی سکھر بیراج سے پانی کا بہاؤ کم ہوگیا ہے ۔بلوچستان کو پانی فراہم کرنے والی نہر میں 2400کیوسک کے بجائے صرف 1200کیوسک پانی بہہ رہاہے ۔

اس میں اچانک کمی کی وجہ یہ بتائی گئی کہ Indus River Systam Authorityنے دریا میں پانی کا بہاؤ کم کیا ہے اس لیے بلوچستان کی طرف آنے والی نہر میں صرف 1200کیوسک پانی فراہم کیا جارہا ہے ۔

حالانکہ سندھ زیرین کے علاقوں میں بہنے والی نہر یں معمول کے مطابق بہہ رہی ہیں ’ یہ پانی کی کمی اور قلت صرف بلوچستان کے کے لئے ہے، پورے پاکستان خصوصاً سندھ اور پنجاب کے لئے نہیں۔

ارسا کے حکام خود اس بات کی تصدیق کیوں نہیں کرتے کہ صرف بلوچستان کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور سندھ کے آبپاشی کے حکام اپنی من مانی کررہے ہیں بلکہ ہمیشہ کرتے آرہے ہیں۔

بزرگ سیاستدان اور سابق وزیراعظم پاکستان میر ظفر اللہ جمالی نے مجبوراً یہ شکایت براہ راست سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ سے کی لیکن اس کے بعد بھی کوئی فرق نہیں آیا، وقتی طورپر معاملات کچھ دنوں کیلیے حل ہوئے لیکن اس کے بعدسندھ کے افسران کے پرانے تیور لوٹ آئے ۔

انہوں نے ایسے موقع پر پانی کی مقدار کم کردی جب چاول کی کاشت زوروں پر ہے ۔سندھ کے افسران کے اس عمل سے دو لاکھ ایکڑ زمین پر چاول کی کاشت کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں ۔

بلوچستان کی حکومت اور اس کے وزراء کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ بلوچستان کی دو لاکھ ایکڑ زمین بنجر ہو جائے ۔ پانی کی کمی سے کاشتکاروں کو اربوں روپے کا نہ صرف نقصان ہوگا بلکہ صوبے کو چاول کی شدید قلت کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔

اس لیے علاقے کے زمینداروں اور کاشتکاروں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگر ان کے جائز حق کا نہری پانی ان کو فراہم نہیں کیا گیا تو وہ سکھر بیراج پر دھرنا دیں گے اور اپنا احتجاج شدت کے ساتھ ریکار ڈ کرائیں گے ۔

اس سے قبل حکومت بلوچستان کو چائیے کہ وہ حکومت سندھ کو مجبور کرے کہ بلوچستان کو اس کے نہری پانی کا جائز حصہ ملے ۔وفاق میں اس وقت ماتم کا عالم ہے اور وہاں کوئی حکومت نظرنہیں آتی۔ تمام وزراء بھاگ کر اپنے گھروں کو چلے گئے ہیں ۔ اسلام آباد میں شاید ہی کوئی وزیر موجود ہو جو وفاقی اکائیوں کے مسائل کو دیکھے ۔

دوسری طرف پٹ فیڈر میں بھی ابتری کے آثار نظر آرہے ہیں ۔ وہاں بھی آخری سرے پر آباد کاشتکاروں کو پانی نہیں مل رہا۔ نہ ہی صوبائی محکمہ آبپاشی نے ان دونوں نہروں کی صفائی کی ہے اور نہ ہی پانی کی چوری کو موثر انداز میں روکا ہے ۔

آخری سرے کے کاشتکار زیادہ پریشان نظر آرہے ہیں ۔ حکومت کو چائیے اس بات کی تحقیقات کرے کہ جو کثیر رقم پٹ فیڈر کی صفائی کے لئے رکھی گئی تھی وہ کہاں گئی ۔ اس کی تحقیقات ہونی چائیے کہ اعلیٰ ترین سطح پر کون بڑا آدمی اس غبن میں ملوث ہے، اس کے خلاف کارروائی ہونی چائیے ۔

البتہ یہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ارسا سے اس بات کی تصدیق کرائے کہ اس نے صرف بلوچستان کا پانی روکا ہے یا نہری پانی میں کمی کو تمام صوبوں میں برابر تقسیم کیا ہے۔

ارسا میں بلوچستان کا نمائندہ موجود ہے، اس سے اس بات کی تصدیق کی جا سکتی ہے ۔ امید ہے حکومت بلوچستان اس مسئلے کو جلد سے جلد حل کرنے کی کوشش کرے گی تاکہ اہم وقت پر کاشتکاروں کو چاول کی کاشت کے لئے مناسب مقدار میں پانی مل سکے ۔