کوئٹہ: کوئٹہ میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے ایس پی قائد آباد اور ان کے تین محافظوں کو شہید کردیا۔ فائرنگ سے ایس پی کا ڈرائیور بھی زخمی ہوا۔ پولیس اور ایف سی نے واقعہ کے بعد سرچ آپریشن میں106مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا۔
پولیس حکام کے مطابق واقعہ پیر کی صبح تقریباً دس بجکر تیس منٹ پر کوئٹہ کے تھانہ بروری کی حدود کلی دیبہ میں ارباب غلام علی روڈ پرپیش آیا۔ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس قائد آباد سرکل مبارک شاہ غبیزئی میر باز خان مینگل اسٹریٹ میں واقع اپنی رہائشگاہ سے تین محافظوں اور ڈرائیور کے ہمراہ سرکاری گاڑی میں دفتر کی طرف جارہے تھے۔
جیسے ہی گاڑی میر باز خان مینگل اسٹریٹ سے ارباب غلام علی روڈ کی طرف مڑی ، گھات لگائے نامعلوم حملہ آوروں نے انہیں نشانہ بنایا۔ اندھا دھند فائرنگ کی جس سے محافظوں کو بھی سنبھلنے کا موقع نہ مل سکا۔ گولیاں لگنے سے ایس پی کے تین محافظ موقع پر ہی شہید جبکہ ایس پی مبارک شاہ اور ان کا ڈرائیور احمداللہ شدید زخمی ہوئے۔
فائرنگ کے باعث ڈرائیور سے گاڑی بے قابوکرسامنے دیوار میں لگ گئی۔ واردات کے بعد ملزمان نامعلوم مقام کی طرف فرار ہوگئے۔ لاشوں اور زخمیوں کو فوری طور پر سول اسپتال پہنچایا گیا۔ ایس پی قائد آباد مبارک شاہ اور ان کے ڈرائیور احمداللہ کو سول اسپتال کے ٹراما سینٹر منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے بتایا کہ اسپتال پہنچنے سے قبل ہی مبارک شاہ کی موت ہوچکی تھی۔ ڈرائیور سپاہی احمداللہ کی حالت خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے ایک گولی ان کے چہرے کو چھوتی ہوئی گزری جبکہ ایک گولی انہیں کندھے پر لگی ہے۔
لاشوں کی شناخت پولیس سپاہی محمد عرفان قریشی، سپاہی سید فضل ربی اور سپاہی مدثر کے ناموں سے ہوئی۔ تینوں کا تعلق کوئٹہ سے بتایا جاتا ہے۔
ڈاکٹر کے مطابق ایس پی مبارک شاہ کو سر، کان، یشانی، کندھے اور سینے پر دس سے زائد گولیاں ماری گئیں۔ جبکہ سید فضل ربی کو سر، کمر اور ران پر ایک گولی لگی ہے۔
محمد عرفان کو سر، سینے اور کمر پر چھ گولیاں ماری گئیں جبکہ سپاہی مدثر کو پانچ گولیاں ناک، کان، ہاتھ اور ران پر پانچ گولیاں لگی ہیں۔ اطلاع ملتے ہی شہید اہلکاروں کے ورثاء کی بڑی تعداد اسپتال پہنچی ۔
اس موقع پر رقت آمیز مناظر دیکھے گئے۔ ورثاء غم سے نڈھال نظر آئے۔ آئی جی پولیس بلوچستان احسن محبوب، ایڈیشنل آئی جی ڈاکٹر مجیب، ایڈیشنل آئی جی کوئٹہ ریجنل عبدالرزاق چیمہ اور دیگر اعلیٰ پولیس حکام نے ہسپتال کا دورہ کیا اور شہداء کے ورثاء سے اظہار ہمدردی کیا۔
اس موقع پر ورثاء نے اپنے غم و غصے کا اظہار بھی کیا۔ بعض مشتعل افراد نے پولیس آفیسران کے خلاف نعرے بھی لگائے۔
آئی جی پولیس کی آمد کے موقع پر ہسپتال میں سیکورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے تھے۔ ہسپتال کے تمام راستوں پر غیر متعلقہ افراد کو داخل ہونے سے روک دیا گیا۔
دوسری جانب پولیس ، ایف سی اور دیگر قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکاروں نے جائے وقوعہ کو گھیرے میں لیکر شواہد اکٹھے کئے۔ پولیس کے مطابق واردات میں نائن ایم ایم پستول کا استعمال کیا گیا جس کے پینتیس خول موقع سے ملے ہیں۔
حملہ آوروں نے گاڑی کو دو اطراف سے نشانہ بنایا ۔ کئی گولیاں قریب واقع مسجد کی دیوار کو بھی لگیں جبکہ ایک گولی لگنے سے مسجد کا شیشہ بھی ٹوٹ گیا۔ پولیس نے واقعہ کو ٹارگٹ کلنگ قرار دیتے ہوئے مختلف پہلوؤں پر تفتیش شروع کردی ہے ۔
دریں اثناء کلی دیبہ اور اطراف کے علاقوں میں پولیس اور ایف سی نے بڑے پیمانے پر آپریشن کرکے 106مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیاجنہیں بروری اور خروٹ آباد تھانوں میں رکھا گیا۔
پولیس حکام کے مطابق ابتدائی پوچھ گچھ کے بعد بیشتر افراد کو رہا کردیا گیا ہے۔