|

وقتِ اشاعت :   July 18 – 2017

پانامہ اسکینڈل آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہے ۔ حکومتی وزراء اوراس کے اتحادی مایوس اور پریشان نظر آرہے ہیں ۔

بعض وزراء اپنی کرسی کو جاتے دیکھ کر ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں اور آئے دن پریس کانفرنس کرکے بے سروپا الزامات لگا رہے ہیں ۔ ان کا غصہ سپریم کورٹ پر ہے ۔

چونکہ سپریم کورٹ پر تنقید کی صورت میں ان کو توہین عدالت کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اس لیے وہ سپریم کور ٹ کے حکم پر قائم کردہ جے آئی ٹی کو نشانہ بنا رہے ہیں حالانکہ جے آئی ٹی نے از خود اختیارات حاصل نہیں کیے بلکہ یہ تمام اختیارات اور احکامات ان کو سپریم کورٹ کے ایک با قاعدہ حکم نامے کے تحت دئیے گئے ۔

ایک سرکاری اہلکار چاپلوسی میں اتنے آگے چلے گئے کہ انہوں نے وزیراعظم اور اس کے بچوں کو بچانے کے لئے سرکاری اور ریاستی ریکارڈ میں جعل سازی کی اور پکڑے گئے ۔

ان کے ماتحت افسران نے گواہی دی کہ ظفر حجازی جو مشہورزمانہ اسلامی ناول نگار نسیم حجازی کے صاحبزادے ہیں ، ریاستی ریکارڈ میں جعل سازی کے مرتکب پائے گئے بلکہ انہوں نے ماتحت افسران کو احکامات جاری کیے اور ان پر دباؤ ڈالا کہ وہ وزیراعظم اور اس کے بچوں کو بچانے کیلئے ریاستی ریکارڈ میں جعل سازی کریں ۔

یہ ثابت ہونے پر سپریم کورٹ نے ان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے، گرفتاری سے بچنے کے لئے ظفر حجازی نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے عبوری ضمانت حاصل کر لی ۔

سپریم کورٹ کے حکم پر مقدمہ قائم ہونے کے بعد بھی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ان کو سرکاری عہدے سے نہیں ہٹایا ۔ یہ عمل بذات خود عدالت کے حکم کی خلاف ورزی ہے ۔

ادھر بعض اتحادی خصوصاً مولانا فضل الرحمان ‘ محمود خان اچکزئی اور حاصل بزنجو بھی وزیراعظم اور ان کے بچوں کے دفاع میں کھل کر سامنے آگئے ۔

مولانا فضل الرحمان اور حاصل بزنجو نے جے آئی ٹی پر سنگین الزامات لگائے اور تنقید کے تمام حدود پار کر گئے۔ اگر سپریم کورٹ نے ان کے بیانات کا نوٹس لیا تو ان کے خلاف عدلیہ کی توہین کا الزام لگ سکتاہے۔

تمام مسلم لیگی وزراء ‘ رہنما او ران کے اتحادی یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ وزیراعظم پر بد عنوانی کے الزامات نہیں ہیں یعنی انہوں نے براہ راست رشوت نہیں لی یا کمیشن وصول نہیں کیا ۔ لیکن وزیراعظم نواز شریف پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے سیاسی اور سرکاری اختیارات کا بے جا استعمال کرکے بے پناہ دولت بنائی ۔

وہ منی لانڈرنگ کے الزامات کا سامنا کررہے ہیں ، کیا یہ کرپشن کے الزامات نہیں ہیں ۔وزیراعظم نے خود اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کیا اور یہ اعلان انہوں نے قومی اسمبلی کے سامنے کیا کہ وہ احتساب کا سامنا کرنے کو تیار ہیں ۔

قطری خط کو نواز شریف اور ان کے خاندان نے لاکر عدالت میں پیش کیا، اب یہ انہی کی ذمہ داری ہے کہ قطری شہزادے کو بھی سپریم کورٹ کے سامنے پیش کریں ۔ اگر وزیراعظم قطری شہزادے کو پیش نہیں کریں گے تو ان کا خط جعلی سمجھا جائے گا۔

سپریم کورٹ کے ایک جج نے بھری عدالت میں یہ اعلان کیا تھا کہ اگر شہزادہ گواہی نہ دے تو خط کو اٹھا کر باہر پھینک دیاجائے ۔

دوسری جانب نیب نے آخر کار یہ فیصلہ کر ہی لیا کہ وزیراعظم کے خلاف 15کرپشن کے مقدمات دوبارہ کھولے جائیں گے اور ان کی تحقیقات جلد شروع ہوجائے گی۔

صرف جے آئی ٹی نہیں اب وزیراعظم نیب مقدمات کا بھی سامنا کریں گے، اب ان کا بچنا مشکل نظر آتا ہے ۔

دوسری جانب حکومتی اور مسلم لیگی رہنماؤں کی جانب سے جے آئی ٹی کی رپورٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیاگیا ہے حالانکہ جے آئی ٹی رپورٹ محض ایک رپورٹ ہے ، یہ کوئی حکم نامہ نہیں ہے ۔ چونکہ سپریم کورٹ کے احکامات تھے اس لیے جے آئی ٹی نے یہ رپورٹ تیار کی اور عدالت کے سامنے پیش کی ۔

اب یہ عدالت کی پراپرٹی ہے، عدالت اس پر غور کرے گی اور اس کے بعد کوئی فیصلہ صادر کیاجائے گا۔ جے آئی ٹی رپورٹ پر طوفان کھڑا کرنے کا مقصد سوائے اس کے کچھ بھی نہیں ہے کہ سپریم کورٹ پر دباؤ ڈالا جائے اور اس میں بتدریج اضافہ کیاجائے تاکہ وزیراعظم کے خلاف ممکنہ فیصلہ نہ آئے ۔ اب یہ عدالت عالیہ کاکام ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرے گی ۔

تاہم وزیراعظم اور اس کے بچے جے آئی ٹی کے سامنے اپنا دفاع نہ کرسکے۔ اب سپریم کورٹ کے سامنے اپنا دفاع کریں اور بتائیں کہ اتنی دولت کہاں سے آئی۔ نہ بتانے کی صورت میں وزیراعظم اپنے عہدے سے معزولی کا پروانہ ضرور حاصل کریں ۔