بلوچستان میں شاید ہی کوئی ایسا شہر یا بڑی آبادی ہو جہاں پر عوام کو مناسب شہری سہولیات حاصل ہوں۔ ایک نظر دوڑانے پر بلوچستان ایک وسیع و عریض کچھی آبادی ہی نظر آتا ہے،یہاں مناسب شہری سہولیات دستیاب نہیں۔اب بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ مقامی آبادی اپنا فضلہ کیر تھر کینال میں ڈال رہی ہے ۔
دوسرے الفاظ میں باقاعدہ سیوریج کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے کیر تھر کینال کو سیوریج لائن کے طورپر استعمال کیاجارہا ہے۔ اس طرح صوبے کے سینکڑوں شہروں میں صحت و صفائی کا وجود نہیں جس کی وجہ سے بیماریاں پھیل رہی ہیں جس سے ہلاکتوں میں اضافہ ہورہا ہے اور سرکاری اسپتالوں پر دباؤ بڑھ گیا ہے ۔ ملک میں کرپشن عروج پر ہے ، ہر آنے والا افسر اپنی مرضی کے بندوں اور رشتہ داروں کو بھرتی کرتا ہے جو کوئی کام نہیں کرتے ۔
دوسری اہم تر وجہ یہ ہے کہ مقامی کونسلوں کو جتنے فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں اس کا نوے فیصد ملازمین کی تنخواہوں کی نظر ہوجاتا ہے ۔ صحت و صفائی ‘ سڑکوں کی تعمیر کے لئے کچھ نہیں بچتا۔
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مقامی کونسلوں کا نظام مکمل طورپر تباہ ہو چکا ہے اب اس میں یہ صلاحیت باقی نہیں رہی کہ وہ مقامی آبادی کی کسی بھی طرح خدمت کر سکے ۔ ہر افسر ‘ ہر لیڈر صرف اور صرف فنڈز کا تقاضہ کرتا نظر آرہا ہے ۔ کوئی افسر یا مقامی کونسل کا نمائندہ اپنی بنیادی ذمہ داریاں پوری کرتا نظر نہیں آتا ۔
ہر طرف سے یہ صدا آرہی ہے کہ ہمیں فنڈز چاہئیں، ہمیں مزید اختیارات چاہئیں ۔ کوئٹہ جس میں شہری سہولیات کا دائرہ کارصرف تجارتی حدود یا پھر سول سیکرٹریٹ ‘ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ ‘گورنر ہاؤس تک ہی محدود ہے ۔ شہر کے زیادہ پسماندہ ترین علاقوں کو نظر انداز کیاجاتا ہے ۔
موجودہ کوئٹہ میٹروپولٹین کارپوریشن کے حکام اتنے نا اہل ہیں کہ کوئٹہ کی سب سے بڑی انسانی آبادی سریاب جو 12میل طویل ہے اس کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے حالانکہ اس علاقے میں نصف درجن سے زائد سابق وزرائے اعلیٰ اور گورنر رہتے ہیں ۔ ایک سابق وزیراعلیٰ کے گھر کے قریب ایک بہت بڑے فٹ پاتھ پر کچرا پڑا رہتا ہے اس کی کسی نے کبھی صفائی ہوتے نہیں دیکھی ۔
البتہ ایک مرتبہ جب وزیراعلیٰ نے کوئٹہ کارپوریشن کو فنڈز دئیے تھے تو یہاں بھی صفائی کی گئی اور پھر فنڈز ختم صفائی ختم۔ معلوم نہیں شہر کی سب سے بڑی آبادی کے خلاف اتنی نفرت کیوں ہے، اس سے کیوں سوتیلی ماں جیسا سلوک کیاجارہا ہے ؟ سب سے بڑی آبادی میں سیوریج کا نظام گزشتہ 70سالوں میں نہیں بنایا گیا ۔
اللہ بھلا کرے نواب بگٹی کاجنہوں نے سریاب روڈ کی سڑک بنا دی اور تمام بعد میںآنے والی حکومتیں اس کی مرمت بھی نہیں کرواتیں۔ آئے دن اس پورے علاقے میں گٹر ابلتے رہتے ہیں اور گٹر کا پانی سریاب روڈ پر بہتا رہتاہے جو پورے علاقے میں بیماریاں اور تعفن پھیلاتا ہے ۔
کئی سال ہوئے کوئٹہ کے مئیر کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ ان ابلتے گٹر وں کا مسئلہ حل کریں ۔ اتوار یا چھٹی کے دن کے علاوہ خواہ عید کا دن ہی کیوں نہ ہو کوئٹہ خصوصاً سریاب روڈ اور پرنس روڈ کے گٹر ضرور ابلتے ملیں گے جو پورے علاقے میں کوئٹہ کارپوریشن کی زیر سرپرستی بیماریاں اور تعفن پھیلاتے رہیں گے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مئیر صاحب مزید اختیارات اور فنڈز طلب کرنے کے بجائے مستقل طورپر ابلتے گٹر بند کرائیں، شہر میں مزید بیماریاں نہ پھیلائیں ۔ سیاست چمکانے کے بجائے لاکھوں انسانوں کی خدمت کریں اور مستقبل کا احمدی نژاد اور اردگان بن جائیں عوام کی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں ۔