واشنگٹن ڈی سی: گزشتہ روز وائٹ ہاؤس کے جاری کردہ بیان میں اعتراف کیا گیا ہے کہ جرمنی میں منعقدہ حالیہ جی 20 اجلاس کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی سربراہ ولادیمیر پیوٹن کے مابین دو خفیہ ملاقاتیں ہوئیں تاہم ان کی کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق یہ ملاقاتیں نجی اور غیر رسمی نوعیت کی تھیں جن میں دونوں صدورِ مملکت کے درمیان مختصر گفتگو ہوئی جبکہ ٹرمپ اور پیوٹن کی باضابطہ ملاقات کا اعلان کچھ دنوں میں کیا جاسکتا ہے۔
اس بیان کے برعکس امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ جرمنی میں ٹرمپ اور پیوٹن کی پہلی ملاقات دو گھنٹے جاری رہی جس میں امریکی صدارتی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت کے علاوہ دیگر عالمی سیاسی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا جبکہ بعد ازاں ایک نجی عشائیے میں ہونے والی دوسری ملاقات کا دورانیہ ایک گھنٹہ رہا جس میں ڈونلڈ ٹرمپ اکیلے تھے لیکن پیوٹن کے ہمراہ ان کے سرکاری مترجم موجود تھے۔
خاص بات یہ ہے کہ ان دونوں ملاقاتوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ کوئی امریکی سرکاری اہلکار موجود نہیں تھا اور وائٹ ہاؤس ترجمان کے مطابق ٹرمپ نے ’’انتہائی دیانت داری‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود ہی اس ملاقات کے بارے میں دیگر عہدیداران کو مطلع کیا تھا اور اس بارے میں بیان جاری کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔
اس بنیاد پر امریکی ذرائع ابلاغ ٹرمپ اور پیوٹن میں مذکورہ خفیہ ملاقاتوں کو بہت معنی خیز قرار دے رہے ہیں کیونکہ ان کی تفصیلات سامنے نہ لانے پر شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکی صدارتی انتخابات کے دوران روسی سرکاری حکام سے رابطوں اور اس موقعے پر روسی ہیکروں کی مبینہ مداخلت کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی الزامات اور تفتیش کی زد میں ہیں۔
اگرچہ خود ٹرمپ اور وائٹ ہاؤس ترجمان اب تک کئی بار ان الزامات کی تردید کرچکے ہیں لیکن اگر یہ افواہیں درست ثابت ہوگئیں تو یہ بات طے ہے کہ مواخذے اور استعفے سے ڈونلڈ ٹرمپ کا بچنا ناممکن ہوجائے گا۔