|

وقتِ اشاعت :   July 19 – 2017

 اسلام آباد: الیکشن کمیشن نے پی ایس 114 کے ضمنی انتخاب میں مبینہ دھاندلی اور ووٹوں کی دوبارہ گنتی سے متعلق ایم کیو ایم کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

چیف الیکشن کمشنر سردار رضا خان کی سربراہی میں پی ایس 114 میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی درخواست پر سماعت ہوئی جس میں ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے فروغ نسیم جب کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے اعتزاز احسن الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے۔

سماعت کے موقع پر وکیل ایم کیو ایم (پاکستان) بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ نتائج مرتب کرتے وقت میرے موکل کو ریٹرننگ افسر نے نوٹس جاری نہیں کیا، حلقے کے 92 میں سے 21 پولنگ اسٹیشنوں میں ووٹوں کی گنتی پر اعتراض ہے کیونکہ 21 پولنگ اسٹیشنوں میں نتائج مرتب کرتے وقت قواعد کی خلاف ورزیاں کی گئیں لہذا ان پولنگ اسٹیشنوں پر انتخاب کالعدم قراردیا جائے اور نادرا سے تصدیق کرائی جائے۔

چیف الیکشن کمشنر نے استفسار کیا کہ دوران پولنگ شکایت تھی تو الیکشن کمیشن کو تحریری طور پر آگاہ کرنا چاہیے تھا جس پر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ میرے دل میں آپ کا بہت احترام ہے لہذا مناسب نہیں سمجھا جب کہ پولنگ والے دن جھگڑے اور بدانتظامی کا الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے پورے ملک کو پتہ چل گیا، ہمارے امیدوار الیکشن جیت رہے تھے تاہم مخالف جماعت نے آخری وقت پر بوگس ووٹ پول کیے۔

فروغ نسیم کا دلائل میں کہنا تھا کہ حلقے کے بیشتر پولنگ اسٹیشنوں پر فارم 14 نہیں دیئے گئے، نتائج مرتب کرتے وقت قواعد کی خلاف ورزیاں کی گئیں لہذا الیکشن کمیشن حلقے میں ووٹنگ کالعدم قرار دے جب کہ 2 ہفتے کے اندر نادرا ووٹوں کی تصدیق کروا سکتا ہے، چیف الیکشن کمیشن نے استفسار کیا کہ کیا نادرا کے ووٹوں کی تصدیق کاعمل شواہد ریکارڈ کرنے کے مترادف نہیں ہوگا جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ  سپریم کورٹ بھی ماضی میں نادرا سے ووٹوں کی تصدیق کرا چکی ہے۔

سعید غنی کے وکیل اعتزاز احسن نے الیکشن کمیشن میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کے روز نہ ہی کسی امیدوار یا ایجنٹ نے بے ضابطگی کی شکایت درج کرائی اور نہ ہی کسی پولنگ افسر یا ریٹرننگ افسر کے سامنے ووٹوں کی گنتی میں بے قاعدگی کی شکایت درج کرائی گئی، انتخابی نتائج فی الفور الیکشن کمیشن کو فراہم کردیئے گئے لہذا جب نتائج الیکشن کمیشن کو چلے گئے تو انتخابی ریکارڈ میں ٹمپرنگ کیسے ہوسکتی ہے۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ سعید غنی نے 3 سال پی ایس 114 میں کام کیے ہیں جب کہ  کامران ٹیسوری فروری 2017 میں ایم کیو ایم میں شامل ہوئے جب کہ الطاف حسین کے بعد اب کراچی میں لوگ نکل کر پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں، اعتزاز احسن نے کہا کہ اگر ایم کیو ایم کو کوئی اعتراض ہے بھی تو الیکشن ٹریبونل سے رجوع کرے جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ مجھے سندھ حکومت اور ریٹرننگ افسر پر اعتماد نہیں لہذا الیکشن کمیشن فیصلے سے قبل نادرا سے ووٹوں کا فرانزک آڈٹ کرائے۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ اس طرح کیس نادرا میں جانے لگے تو ہر حلقے کا رزلٹ چیلنج ہو جایا کرے گا، پھر تو قومی و صوبائی اسمبلیوں کے لیے بھی نادرا کی تصدیق لازمی قرار دیدیں جب کہ ایم کیو ایم کے امیدوار نے درخواست میں کوئی ثبوت نہیں لگایا۔

الیکشن کمیشن نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد پی ایس 114میں دوبارہ گنتی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا جو کل سنایا جائے گا۔