|

وقتِ اشاعت :   July 20 – 2017

نواز شریف اور اس کے خاندان کے خلاف کرپشن کا مقدمہ آخری مراحل میں داخل ہوگیا ہے ۔ سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے, وزیراعظم کے وکیل دلائل دے رہے ہیں, اس کے بعد اسحاق ڈار کے وکیل دلائل دیں گے اورپھر اندازہ ہے کہ سپریم کورٹ فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے مناسب وقت پرسنائے گی ۔ 

موجودہ سماعت کے دوران یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ نواز شریف اور اس کا خاندان کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکے ۔ شریف فیملی کے خلاف الزام ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر منی لانڈرنگ میں ملوث رہی ہے ۔

پھر عوام اور عدالت کے سامنے قابل قبول شہادت بھی پیش کرنا ہے کہ اتنی بڑی دولت کہاں سے آئی؟ شریف خاندان کی دولت اس کی معلوم آمدنی سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ اکثر مخالفین یہ الزام لگاتے ہیں کہ سرکاری اور ریاستی اختیارات کا غلط استعمال کرکے اتنی بڑی دولت کمائی گئی۔ 

ایک اتفاق فاؤنڈری سے 28 کارخانے اور ملیں قائم کیں اور یہ سب شریف خاندان کی ملکیت ہیں ۔اس کے برعکس معروف گجراتی بولنے والے صنعت کا راور تاجر جو بھارت سے ہجرت کرکے آئے ، اپنے ساتھ اربوں روپے کا سرمایہ لائے او رپاکستان میں بڑے بڑے کارخانے لگائے جہاں پر ہر کارخانے میں ہزاروں مزدور کام کرتے ہیں ۔ان ارب پتی کارخانے داروں ‘ صنعت کاروں اور تاجروں کا ملک سے نام و نشان غائب ہوگیا ۔

وجہ ان کی ریاست کے معاملات میں عمل دخل نہیں تھی بلکہ معمولی تھانے دار بھی ان کی درخواست کو نفرت کے ساتھ مسترد کرتا تھا ۔ ادھر پنجاب بھر میں مقامی تاجر انتظامیہ اور حکومت میں بے انتہاسیاسی اثر ورسوخ کے مالک بن گئے ۔

ان خاندانوں نے ریاستی معاملات میں اثر ورسوخ کو استعمال کیا اور سب ارب پتی بن گئے ۔ اب پنجاب میں ان کی تعداد ہزاروں میں ہے ان میں ایک شریف خاندان ہے جنہوں نے صرف اور صرف سرکاری اور ریاستی اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور ارب پتی بن گئے چونکہ یہ چالاک اور ہوشیار لوگ ہیں۔

انہوں نے اپنی بد عنوانی کا کوئی ثبوت نہیں چھوڑا ۔ ظفر حجازی جیسے لوگوں کو استعمال کرکے تمام ثبوت ضائع کیے اس لیے سپریم کورٹ بار بار یہ مطالبہ کرتا آرہا ہے کہ اتنی بڑی دولت کا منی ٹریل لائیں مقدمہ ختم ۔ بنیادی طورپر اتنی بڑی دولت اور جائیداد جائز آمدنی کے ذرائع سے مطابقت نہیں رکھتی۔ 

اس لیے لوگ یہ توقع کررہے ہیں کہ جلد یا بدیر وزیراعظم کونااہلی کا سامنا کرناپڑے گا۔ جبکہ وزیراعظم کے حامی وزراء اور مسلم لیگی رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے کوئی کمیشن اور کیک بیک نہیں لیا اورنہ ہی اس کا کوئی ثبوت ہے ۔

دوسری جانب سیاسی محاذ پر زیادہ گرمی دکھائی دے رہی ہے ۔ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی زور شور سے تیاریاں جاری ہیں کہ وزیراعظم کے خلاف وہ اپنی اسٹریٹ پاور کا مظاہرہ کریں گی۔ 

کم سے کم حکومت کے رویے اور مسلم لیگیوں کے اشتعال انگیز بیانات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حزب اختلاف نہ صرف قومی اسمبلی میں بلکہ سڑکوں پر بھی احتجاج کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جو ملک اور قوم کیلئے کوئی نیک شگون نہیں ہے ۔

پاکستان بار کونسل نے وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ جلد ہی وکلاء کنونشن طلب کیا جائے گا، وکلاء عدالتوں کا بائیکاٹ کریں گے اور سڑکوں پر اس وقت تک احتجا ج کیاجائے گا جب تک وزیراعظم اپنے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیتے ۔

یہ ایک خطر ناک صورت حال ہے شاید وزیراعظم اور اس کے مصاجین نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ملک کو انتشار میں ڈالیں گے تاکہ کوئی ان سے استعفیٰ طلب نہ کرے یعنی ملک کی تباہی تک وہ اقتدار پر براجمان رہیں گے۔ 

اگر سپریم کورٹ ان کو نا اہل قرار دیتی ہے تو یہ ایک اور بات ہے ۔ مگر نواز شریف کا اقتدار سے چمٹے رہنے کا فیصلہ اٹل معلوم ہوتا ہے جس سے ملک کے اندر انار کی پھیلنے کا اندیشہ رہے گا تاہم ملک کی بڑی اور زیادہ ذمہ دار پارٹیوں سے یہ امید ہے کہ وہ ملک کو آنے والے انتشار اور انار کی سے بچائیں گے تاکہ دشمن ممالک اس کا فائدہ نہ اٹھا سکیں ۔