|

وقتِ اشاعت :   July 23 – 2017

محکمہ صحت نے ایک حکم نامہ جاری کیا ہے جس کے تحت سرکاری اوقات کار میں حکومت کے ملازم ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس پر پابندی ہوگی لیکن ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد ان کو پرائیویٹ پریکٹس کی اجازت ہوگی ۔

یہ ایک خوش آئند اقدام ہے تاہم اس حکم نامے میں تضاد ہے کیونکہ ڈاکٹر ریاست کا کل وقتی ملازم ہے ، جزوقتی نہیں اس لیے اس پر مکمل پابندی ہونی چائیے کیونکہ حکومت ڈاکٹروں کی تعلیم اور تربیت پر کئی قیمتی سال اور کروڑوں روپے خرچ کررہی ہے ۔

اس کے برعکس دیکھا گیا ہے کہ ڈاکٹر جب سرکاری اسپتالوں میں نوکری پر بھرتی ہوتے ہیں تو یہ کم سے کم تعدادمیں اور مختصر وقت کے لیے ڈیوٹی پر حاضر رہتے ہیں ا ور زیادہ تر غائب رہتے ہیں ۔اکثر انتہائی سینئر ڈاکٹرحضرات بھی ڈیوٹی کے اوقات میں اپنے کلینک میں مریضوں کا علاج کرتے ہیں جبکہ اپنی ڈیوٹی پر سرکاری اسپتالوں میں موجود نہیں ہوتے۔

ایسا عمل انسانیت کے خلاف جرائم میں شمار ہونا چائیے ۔ سرجن صاحبان کی ڈیوٹی ٹائم تو نہیں ہوتی کسی وقت بھی حادثہ ہوسکتا ہے، ان کو ہر وقت ڈیوٹی پر موجود ہونا چائیے ۔گزشتہ دنوں ایک سرجن صاحب ڈیوٹی پر نہ پہنچ سکے ۔

گھنٹوں انتظار کے بعد مریض نے اسپتال میں دم توڑ دیا، اس میں نامی گرامی سرجن کی غفلت تھی لیکن چونکہ ان کا تعلق طاقتور طبقات سے جڑ گیا ہے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہورہی۔

جتنے بھی سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹر ہیں ان سب کے پرائیویٹ پریکٹس پر جز وقتی نہیں کل وقتی پابندی بر قرار رہنی چائیے ۔ جز وقتی پابندی کوئی اہمیت نہیں رکھتی اس پر عمل درآمد کرانا مشکل ہے۔

اس لیے سرکاری اسپتالوں میں ملازم ڈاکٹر کسی قسم کی پرائیویٹ پریکٹس نہ کریں اگر وہ شوقین ہیں کہ جلد سے جلد اور زیادہ سے زیادہ دولت کمائیں اور ارب پتی بن جائیں تو وہ سرکاری اسپتالوں کی ملازمت سے استعفیٰ دیں اور کل وقتی طورپر اپنا ذاتی پریکٹس کریں توکسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

ویسے بھی پورے بلوچستان اورخاص کر کوئٹہ میں اسپتالوں کی بھر مار ہے اور ان کے مالکان کروڑ وں نہیں اربوں روپے کما رہے ہیں ۔

بلوچستان میں پرائیویٹ اسپتالوں کے نظام کو چلانے کے لئے کوئی قانون نہیں بعض اسپتال مذبحہ خانوں میں تبدیل ہوچکے ہیں عوام کے حقوق کی حفاظت کے لئے کوئی قانون نہیں ہے۔

اس لیے یہ ضروری ہے کہ نجی اسپتالوں کو ریگولیٹ کرنے کے لئے سخت قوانین نافذ کیے جائیں ، ڈاکٹروں کی فیس کم سے کم رکھی جائے اگر ہوسکے توسرکاری اسپتالوں کی حالت بہتر بنائی جائے تاکہ مریض نجی اسپتالوں کا رخ نہ کریں۔

صرف کوئٹہ شہر میں حکومت کے سات بڑے اسپتال ہیں ،ان کو صحیح طریقے سے چلایا جائے اور ان کے نظام کو جدید خطوط پر منظم کیاجائے تاکہ مریض نجی اسپتالوں کا رخ ہی نہ کریں ۔

بہر حال سرکاری ڈاکٹروں کی نجی پریکٹس پر مکمل پابندی لگائی جائے کیونکہ وہ ریاست کے ہمہ وقتی ملازم ہیں جز وقتی نہیں ۔ اور ساتھ ہی ان کے تمام غیر قانونی آرگنائزیشنز پر فوری پابندی لگائی جائے، ان کو ہڑتال کا حق حاصل نہیں ۔

ریاستی اداروں میں ٹریڈ یونین کی اجازت نہیں اور نہ ہی وہ اجتماعی سودا کاری کا حق رکھتے ہیں اس لیے ریاستی اداروں میں ان تمام آرگنائزیشنزکو کالعدم قرار دیاجائے۔ ریاست کے کاروبار کو بند کرنے یا دباؤ ڈالنے کا کسی کوکوئی حق نہیں ۔

پہلے تو ان تمام اداروں پر پابندی لگائی جائے اگر کوئی ادارہ ہڑتال کرانے کی کوشش کرے تو پہلے منتظمین کو نوکری سے برطرف کیا جائے اور ان کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے ۔

بلوچستان کے تمام سرکاری اور ریاستی اداروں میں ٹریڈ یونین اور ان کی سرگرمیوں پر پابندی لگائی جائے ۔