بلوچستان میں امن وامان کی صورت حال حالیہ دنوں میں زیادہ مخدوش نظر آرہی ہے۔گزشتہ دو تین ہفتوں کے دوران پولیس کے دو انتہائی سینئر افسران کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا ۔
اس کے علاوہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے دو بھائی بہن موٹر سائیکل پر سوارجارہے تھے کہ ان کو گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا ۔
مستونگ میں بھی ہزارہ برادری کے چار افراد ‘ بشمول ایک خاتون کو گھات لگا کر قتل کیا گیا۔
ان تمام واقعات پر عوام الناس کی تشویش بجا ہے اس کے لیے حکومت وقت وہ تمام ضروری اقدامات کرے جو شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کیلئے ضروری ہیں ان میں حکومتی پالیسی پر نظر ثانی بھی شامل ہے۔ امن وامان کو بحال کرنے میں پولیس کا کردار کلیدی اور اہم ہے ۔
پولیس مقامی آبادی سے تعلق رکھتی ہے اور مقامی آبادی کے مفادات کی نگرانی کرتی ہے بلکہ مقامی آبادی اور پولیس کے مفادات یکجا ہیں لہذا پولیس شہریوں کیلئے پہلی دفاعی لائن ہے خصوصاً جرائم پیشہ افراد، دہشت گردوں اور انسان دشمن طاقتوں کے خلاف پولیس پہلی اور مضبوط ترین ڈھال ہے ۔
سول آرمڈ فورسز اس کا نعم البدل کبھی نہیں ہو سکتیں۔ وجہ یہ ہے کہ وفاقی سیکورٹی اداروں کا مقامی لوگوں سے کبھی تعلق نہیں رہا ،ان کا کام سرحدوں کی نگرانی ہے۔
شہری علاقوں کے محل و قوع اور انسانی اقدار سے وہ قطعاً نا بلد اور نا واقف ہیں وہ صرف احکامات کی تعمیل جانتے ہیں باقی تمام معاملات ان کے عقل سے بالا تر ہیں۔
صرف ہنگامی صورت حال میں ان کی خدمات کو استعمال کیاجاسکتا ہے ، روزانہ اور معمول کے امن عامہ کے معاملات کو حل کرنا صرف او رصرف مقامی پولیس یا بلوچستان لیویز کاکام ہے اس لیے بلوچستان میں پولیس اور بلوچستان لیویز کے اداروں کو زیادہ منظم کیاجائے اوران کو بہتر تربیت فراہم کی جائے ۔
یہ دونوں ادارے اپنی قوت عوام اور مقامی معاشرے سے حاصل کرتے ہیں اور معاشرہ کا دفاع زیادہ موثر انداز میں کرتے ہیں۔ معمولی واقعات میں بڑی تعداد میں لوگ لیویز اور پولیس کی مدد کو آجاتے ہیں مگر غیر مقامی فورس کی صورت میں بر ملا عدم دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں اس وجہ سے نیب یا قومی احتساب بیورو بلوچستان میں قطعاً ناکام ہیں وہ صرف اور صرف جاسوس اداروں کی فراہم کردہ اطلاعات پر کام کرتے ہیں ان کو مقامی آبادی اور معاشرے کا اعتماد حاصل نہیں ہے ۔
اس کے برعکس مقامی پولیس اور لیویز کے سپاہی کے پاس درجنوں ایسے قابل اعتماد دوست‘ رشتہ دار ‘ پڑوسی موجود ہوتے ہیں جو ان کو ہر طرح کی اطلاعات فراہم کرتے ہیں اس اعتبار اور یقین کے ساتھ کہ ان اطلاعات کو غلط استعمال نہیں کیا جائے گا۔
یہ اعتبار اور یقین نا معلوم، غیر معروف اور اجنبی افسران یا اہل کاروں کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے حکومت بلوچستان اپنے تین اداروں پولیس ‘ لیویز اور بلوچستان کانسٹیبلری کی تربیت پر زیادہ توجہ دے تاکہ کبھی بھی ہنگامی صورت حال میں ایف سی کو نہ بلانا پڑے ۔
بلوچستان میں بے روزگاری اتنی زیادہ ہے کہ اچھے سے اچھے قابل نوجوان اور تعلیم یافتہ لوگ پولیس ‘ لیویز اور بلوچستان کانسٹیبلری میں بھرتی کے لئے مل جائیں گے۔
ہم نے یہ مشورہ پہلے بھی دیا تھا کہ بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے ذریعے پولیس ‘ لیویز، بلوچستان کانسٹیبلری کے افسران بھرتی کیے جائیں اوران کی با قاعدہ تربیت کے بعد ان کو یہ ذمہ داری سونپی جائے کہ وہ اپنی فورس کو جدید بنیادوں پراستوار کریں۔
اور آخر میں پولیس اور لیویز فورس کو یکجا کرکے ایک نئی اور مقامی فورس تشکیل دی جائے جس کا کمانڈ اور کنٹرول صوبائی حکومت کے پاس ہو ۔
مشرف دور حکومت میں لیویز کو پولیس میں ضم کیا گیا تھا اس دوران پولیس افسران نے لیویز اہلکاروں کے ساتھ ذلت آمیز رویہ اختیار کیاتھااوران کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا تھا ۔