|

وقتِ اشاعت :   July 26 – 2017

دہشت گردوں نے ایک بار پھر لاہور کو نشانہ بنایا جس میں نو پولیس اہلکاروں سمیت 28افراد جاں بحق ہوئے اور تقریباً چالیس کے لگ بھگ دوسرے افراد زخمی ہوئے ۔یہ دھماکہ خود کش تھا اور خودکش حملہ آور اطلاعات کے مطابقت موٹر سائیکل پر سوار تھا۔

ایک دوسری اطلاع کے مطابق خودکش حملہ آور پیدل تھا اور آسانی کے ساتھ اپنے ہدف کو پہنچ گیا۔ ہدف پولیس پارٹی تھی اس پولیس دستے کا تعلق’’ بلوہ پولیس ‘‘ سے تھا چونکہ سبزی منڈی کے اندر تجاوزات کے خلاف ایل ڈی اے کی مہم جاری تھی اور یہ پولیس فورس ان افراد کی حفاظت کیلئے تھی جو تجاوزات ہٹا رہے تھے۔

حملہ ’’ بلوہ پولیس ‘‘ کے دستے پر ہوا ۔ یہ زور دار دھماکہ تھا سرکاری ذرائع کے مطابق دھماکے میں چھ سے آٹھ کلو گرام دھماکہ خیز مواد استعمال ہو اجس سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ۔ کئی ایک گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں تباہ ہوئیں یا ان کو شدید نقصان پہنچا ۔

حادثہ کے فوری بعد پولیس کے دستے اور بعد میں مسلح افواج کے جوان بھی پہنچ گئے اور انہوں نے امدادی کارروائیوں میں مدد فراہم کی ۔ دھماکے کے فوری بعد علاقے کو سیل کردیا گیا اور تفتیش کا عمل شروع کردیا گیا، پور اعلاقہ گھیرے میں رہا تاوقتیکہ پولیس اور تفتیش کاروں نے موقع پر سے شواہد اکٹھے کیے ۔

ادھر ہسپتالوں میں ہنگامی حالات کا اعلان کردیا گیا اور وہ ڈاکٹر حضرات جو چھٹی پر تھے ان کو بھی ہنگامی حالات کے تحت فوری طور پر طلب کر لیا گیا۔ زخمیوں کو لاہور کے تین بڑے اسپتالوں میں رکھا گیا ہے ۔

ادھر تحریک طالبان نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے اور ساتھ میں اسلامی راج قائم کرنے کا دوبارہ عہد کیاہے۔ اس سے قبل صوبائی حکومت نے سیکورٹی الرٹ جاری کیا تھا سیکورٹی الرٹ کے دوران دہشت گروں نے حملہ کرکے خدشات کو درست ثابت کیا ۔

افغان خانہ جنگی میں ہماری سابق حکومتوں نے جہادی سیاست کو فروغ دیا اور مدرسوں کو جہادی عناصر فراہم کرنے کا ٹاسک دیا چونکہ ان میں اکثریت کرائے کے لوگوں کی تھی اور اپنی سوچ کے بجائے کرائے پر کام کرتے تھے ۔

جب ان کے اختلافات زیادہ ہوگئے تو انہوں نے پاکستان کے خلاف بغاوت کردی ۔اطلاعات ہیں کہ ان عناصر کو اب بھارت اور افغانستان کی حمایت حاصل ہے اور وہیں سے ان کو کنٹرول کیا جاتاہے اور انہی دونوں ممالک کی ہدایات پر یہ کرائے کے لوگ دہشت گردی کی کارروائیاں کررہے ہیں ۔

ان دہشت گردوں کا زیادہ تر تعلق افغان غیر قانونی تارکین وطن اور مہاجرین سے ہے ۔ اگر حکومت وقت سیاست اور سفارت کاری چھوڑ دے اور صرف غیر قانونی تارکین وطن کو افغانستان واپس بھیج دے ’ اور جلد از جلد واپس بھیج دے تو سیکورٹی کی صورت حال میں بہت زیادہ بہتری آسکتی ہے ۔

اکثر افغان باشندے ان دہشت گردی کے واقعات میں ملوث پائے گئے ہیں شاید ہی کوئی مقامی یا پاکستانی شہری اس قسم کے خودکش حملوں میں ملوث ہو ۔

پاکستان کی سیکورٹی کے لئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ افغانوں کو جلد سے جلد اپنے وطن روانہ کیاجائے تاکہ پاکستان کو وہ کم سے کم نقصان پہنچا سکیں ۔ اور دوسری ضروری کارروائی یہ کی جائے کہ تمام دینی مدارس کو حکومتی تحویل میں لیاجائے تاکہ ملک کے اندر ہزاروں کی تعداد میں جہادی فیکٹریاں بند ہوجائیں ۔

اسی میں ملک اور قوم کی عافیت ہے ۔ حکومت دیگر ذرائع بھی استعمال کرے اس میں پولیس کے نظام کو زیادہ موثر بنایا جائے اور پولیس فورس میں کرپشن کے خاتمے پر زیادہ توجہ دی جائے۔

پولیس پر سیاسی کنٹرول مکمل طورپر ختم کیاجائے اور پولیس کو ایک قوت کی بجائے ایک سروس بنائی جائے جو سماج کی حفاظت کرے اوروہ صرف کیمونٹی پولیس ہی کر سکتی ہے ۔

اس کی واضح مثال بلوچستان لیویز ہے جو حقیقی معنوں میں کمیونٹی پولیس ہے جو اپنی قوت اور طاقت کیمونٹی اور سماج سے حاصل کرتی ہے اور تنخواہ ریاست سے لیتی ہے ۔ ریاست اس کو کم سے کم سہولیات اور مراعات فراہم کررہی ہے ، اس کو دیہی پولیس کا نام بھی دیا گیا ہے ۔