اخباری اطلاعات ہیں کہ وفاقی حکومت نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ کچھی کینال کو بگٹی قبائلی علاقے تک محدود کیاجائے گا ۔ بلوچستان کابینہ کے ایک رکن جن کا تعلق نصیر آباد سے ہے ،نے یہ انکشاف کیا ہے کہ کچھی کینال کو بگٹی علاقے تک محدود کردیا گیا ہے ، اس کے بعد نہر کی تعمیرات روک دی جائیں گی۔
واضح رہے کہ بگٹی علاقے تک کچھی کینال کی تعمیرات مکمل کر دی گئی ہیں ۔ اب تک صرف پہلے مرحلے کی تعمیرات پر 65ارب روپے کی لاگت آئی ہے دوسرے اور تیسرے مرحلہ کی تعمیرات پر تقریباً 75ارب لاگت کا تخمینہ لگایاگیا ہے ۔
وزیراعظم پاکستان نے اعلانیہ یہ بات تسلیم کی تھی کہ کچھی کینال میں بہت کرپشن ہوئی ہے اور انہوں نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ اس میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
متعلقہ کمپنی نے غیر معیاری تعمیرات کے ساتھ پہلے مرحلے کی تعمیرات حکومت کے حوالے کرنے کی کوشش کی لیکن کچھ ایماندار افسران نے غیر معیاری تعمیرات کی نشاندہی کی اور اس طرح ٹھیکیدار جس کے حکومتی حلقوں میں زبردست اثرورسوخ ہے، ان کوغیر معیاری حصے دوبارہ تعمیر کرنے پڑے ۔
اب معلوم ہوا ہے کہ کام مکمل ہوگیا ہے اس کو حکومت کے حوالے کرنے کے بعد یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ حکومت دوسرے اور تیسرے مرحلے کی تعمیرات سے دستبردار ہوگئی ہے ۔ اب کچھی کینال کو بگٹی قبائلی علاقے تک محدود تصور کیاجائے اور اس کی مزید تعمیرات کچھی کے میدانی علاقے تک نہیں پہنچیں گی۔
اب اس کا نام بھی شاید تبدیل کر کے بگٹی کنال رکھا جائے ۔ واضح رہے کہ 1991ء کے دریائی پانی کی تقسیم کا معاہدہ صوبوں کے درمیان ہوا تھا اس کے روح رواں شہباز شریف تھے نواب بگٹی بلوچستان کی نمائندگی کرتے ہوئے ان کی معاونت کررہے تھے ۔
اس معاہدے کی رو سے دریائے سندھ سے بلوچستان کو دس ہزار کیوسک اضافی پانی دینے کا معاہدہ ہوا ۔ 1991ء سے لے کر آج تک بلوچستان کو دس ہزار کیوسک پانی سے محروم رکھا گیا ہے، وجہ یہ بتائی گئی کہ بلوچستان کو پانی وصول کرنے کے لئے بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں ہے۔
اس سے قبل سابق گورنر میر غوث بخش بزنجو نے 1972ء میں بہ حیثیت گورنر کچھی کینال کی اسکیم تیار کی اور اس کوو فاق کے سامنے رکھا کہ کچھی کے میدانی علاقے جو 75لاکھ ایکڑ پر مشتمل ہیں ،ان کو آباد کیاجائے ۔
بہرحال 1991ء کے پانی معاہدے کے بعد کچھی کینال کی تعمیر شروع ہوئی ۔ ابتدائی اور مکمل لاگت کا تخمینہ صرف 50ارب روپے لگایا گیا ، اب اس کی لاگت کا اندازہ 130ارب روپے ہے ۔ پہلے مرحلے پر 65ارب خرچ ہوچکے ہیں ۔
صوبائی وزیر میرمحمد خان لہڑی سے زبانی پتہ چلا کہ کچھی کینال کو بگٹی علاقے تک محدود کیا گیا ہے، اب مزید تعمیرات نہیں ہوں گی ، بلوچستان کو اس کے حصے کا پانی نہیں ملے گااور 75لاکھ ایکڑ زمین بنجر ہی رہے گی ۔
پہلے تو حکومت بلوچستان ،وفاقی حکومت سے اس بارے میں وضاحت طلب کرے کہ آیا یہ تاثر درست بھی ہے یا نہیں ۔ اگر درست ہے تو ا س پر احتجاج کیاجائے اور وفاقی حکومت کو مجبور کیا جائے کہ اس اسکیم کو مکمل کرے اور اس کے لئے فنڈز فراہم کرے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ گزشتہ 26سالوں سے بلوچستان کے حصے کا پانی دوسرے صوبے استعمال کرتے رہے ، اس کا مکمل معاوضہ دیاجائے ۔اگر صوبائی حکومت اس میں ناکام رہی ہے تو صوبائی حکومت کے 76ارب روپے کے ترقیاتی پروگرام کو الگ چلانے کا کوئی جواز نہیں ہوگا ۔
یہ تمام فنڈ صرف اور صرف ایک میگا پروجیکٹ کچھی کینال پر خر چ ہوں گے ، کوئی ایم پی اے اسکیم نہیں ہوگی ۔ اس فنڈ سے بلوچستان کے سات لاکھ ایکڑ زمین کو آباد کرنا اور لاکھوں افرادکو روزگار فراہم کرنا اولین ترجیح ہے ۔
صوبائی حکومت ، مسلم لیگ اور اس کے اتحادی بلوچستان کے مفادات کا تحفظ نہیں کر سکتے تو ان کو بھی حکمرانی کا کوئی حق حاصل نہیں ہے ۔ مسلم لیگ نے چار سالوں میں بلوچستان میں کوئی میگا پروجیکٹ شروع نہیں کیا البتہ بلوچستان سے آخری میگا پروجیکٹ بھی چھین لیا۔
اگر بلوچستان پارلیمان کے اراکین کچھی کینال مکمل نہیں کر اسکتے تو ان کو استعفیٰ دے دینا چائیے۔ بلوچستان کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ حکمرانوں کو بلوچستان کی ضرورت نہیں ہے ۔
کچھی کینال ‘ حکومت وضاحت کرے
وقتِ اشاعت : July 27 – 2017