|

وقتِ اشاعت :   July 28 – 2017

سندھ کے صوبائی اسمبلی نے احتساب یا نیب کی منسوخی کا قانون دوبارہ منسوخ کردیا اور ایک بار قانونی اورجمہوری انداز میں سندھ کے عوامی نمائندوں نے نیب کو سندھ سے بے دخل کرنے کا قانون پاس کردیا۔

اس سے قبل سندھ کے گورنر نے عوامی نمائندوں کی جانب سے بنائے گئے قانون پر دستخط کرنے سے انکار کیا اور سندھ اسمبلی کو بل دوبارہ روانہ کیا اس طرح انہوں نے سندھ کے عوام کی جمہوری رائے کو آمرانہ طریقہ سے مسترد کردیا اور سندھ دشمن قوتوں کی سیاسی طورپر پشت پناہی کی ۔

اس کے بعد ان کا گورنرسندھ کے عہدے رہنے کاجواز ختم ہوجاتا ہے ۔ سندھ میں مسلم لیگ ن کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے ۔ گورنر سندھ شاید واحد شخص ہیں جو مسلم لیگ کی نمائندگی سندھ میں کررہے ہیں لیکن وہ اپنے منصب سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں ۔

اور سندھ کی منتخب اسمبلی اور حکومت کے خلاف زیادہ سے زیادہ مشکلات پیدا کررہے ہیں ۔ادھر سندھ اسمبلی کے اندر حزب اختلاف کا رویہ بھی منفی تھا اور دوسری بار بھی انہوں نے ایسے قانون کی مخالفت کی جس کا مقصد سندھ کو زیادہ اختیارات اور زیادہ خود مختاری دینا ہے۔

ایسے باتوں کی مخالفت سیاست نہیں بلکہ اس کو سندھ دشمن اور سندھ دھرتی سے انحراف گردانا جاتا ہے ۔ قرار داد پاکستان میں واضح طورپر وفاقی اکائیوں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ وفاقی اکائیاں پاکستان کے اندر رہتے ہوئے مکمل طورپر ’’ آزاد اور خودمختار‘‘ ہوں گی ۔

وفاق کے پاس کم سے کم اور صرف ضروری اختیارات ہوں گے خصوصی طورپر دفاع اور امور خارجہ کے علاوہ باقی تمام اختیارات وفاقی اکائیوں کے پاس ہوں گے ۔ قیام پاکستان کا بنیادی فلسفہ یہی تھا ۔

اب موقع پرست اور بد نیت لوگ ذاتی مفادات کی وجہ سے وفاق اور وفاقی اکائیوں کے درمیان ایک بڑی خلیج پیدا کررہے ہیں جو پاکستان اور اس کی سلامتی کے خلاف ہیں ۔

نیب کو کے پی کے سے بے دخل کیا گیا تو سب مضبوط مرکز والوں کو سانپ سونکھ گیا کسی نے کچھ نہیں کہا۔ کے پی کے ایک بہت ہی طاقتور صوبہ ہے اس پر حکم چلانا آسان کام نہیں ، اس کی پشت پر افغانستان کی پوری ریاست ہے لیکن باقی دو چھوٹے صوبے مغلوب بن گئے ہیں ۔

سرکاری ملازم بغیر اجازت کے سرکاری اجلاس کے دوران ہال میں گھس کر وزیر کو گرفتار کر لیتے ہیں ، یہ سب کچھ مغلوب صوبے سندھ اور بلوچستان میں ممکن ہے کسی کی کیا مجال کہ شہباز شریف کے کسی وزیر کو اس کی اجازت کے بغیر گرفتارکرے، یہ نا ممکن بات ہے۔

اس لیے ملک کا مفاد اسی میں ہے کہ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے صوبے بالکل ’’ آزاد اور خودمختار ‘‘ ہوں، وفاقی حکومت ان میں مداخلت نہ کرے، اپنے تمام وفاقی ادارے صوبوں سے واپس بلا ئے اوراگر بعض اداروں کی صوبوں کو ضرورت ہو تو وہ سب کے سب وزرائے اعلیٰ کے ماتحت ہوں۔

صوبوں میں وفاقی کی حکمرانی کو ختم کیا جائے ۔احتساب کا تعلق امن عامہ سے ہے اس لیے یہ صوبائی معاملہ ہے لہذا صوبوں سے ایف آئی اے ‘ نیب کو نکالا جائے اور صوبائی پولیس اور صوبائی ادارے احتساب کریں کیونکہ وہ مقامی لوگوں کے سامنے جوابدہ ہیں ۔

بلوچستان اور سندھ میں ہر وفاقی ملازم اپنے آپ کو حکمران تصور کرتا ہے بلکہ بعض تو وزیرا علیٰ کو بھی اپنا ماتحت سمجھتے ہیں،مجال ہے کہ وفاقی ملازمین مقامی افسران کے احکامات کی تعمیل کریں ۔

ایک بار سابق وزیراعلیٰ سردار عطاء اللہ مینگل نے با قاعدہ پولیس کو حکم دیا کہ اگر کوئی وفاقی ملازم حکم عدولی کرے اور عوامی مفادات کے خلاف کام کرے تو اس کو گرفتار کیا جائے اور ان کو لاک اپ میں ڈالا جائے اور اس کو صوبہ بدر کیاجائے ۔

اس کے بعد وفاقی افسران ‘ بشمول ڈی ایم جی گروپ لوگوں کے ساتھ شرافت سے پیش آئے ۔ ایک بڑے افسر نے وزیراعلیٰ کی حکم عدولی کی تو اسی وقت اس کے گرفتاری کے احکامات جاری کیے گئے ۔ لہذا صوبائی خودمختاری صوبوں کا حق ہے، وفاق اپنی وفاقی حکومت چلائے ، صوبوں میں مداخلت بند کرے۔