گزشتہ دہائی میں آر سی ڈی آئی وے کا کوئٹہ ‘ نوشکی سیکشن انتہائی خستہ حالت میں تھا ، اللہ اللہ کرکے اس کی حالت ٹھیک کر دی گئی اب گاڑی والوں اور مسافر بسوں کو کچھ زیادہ پریشانی کا سامنا نہیں پڑرہا ۔
لیکن آر سی ڈی ہائی وے نوشکی سے لے کر تفتان تک انتہائی خراب حالت میں ہے ۔
جگہ جگہ گڑھے پڑ گئے ہیں جو ایک ایک فٹ گہرے ہیں جو انسانی زندگی کے لئے انتہائی خطر ناک ہیں۔ نوشکی سے دالبندین تک سڑک خراب ہے اور استعمال کے قابل نہیں ۔ صرف دالبندین کے قریب سڑک کی حالت کچھ اچھی ہے ، باقی پورا سیکشن آثار قدیمہ کی نشاندہی کررہا ہے ۔
اس طرح دالبندین سے تفتان تک سڑک کے دو حصے ہیں ، پہلا دالبندین سے نوکنڈی اور یک مچھ تک یہ سیکشن انتہائی خراب ہے پھر دوسرا سیکشن نوکنڈی سے لیکر تفتان سرحدی قصبہ تک کی بھی یہی حالت ہے جس پر کسی بھی وقت بڑے حادثات ہوسکتے ہیں ۔
این ایچ اے نے آر سی ڈی ہائی وے پر خصوصاً نوشکی سے لے کر تفتان تک کوئی توجہ نہیں دی ہے ۔
دہائیوں سے اس کی مرمت اور دیکھ بھال نہیں ہورہی ۔ بجٹ میں سڑک کی مرمت کے لئے 50کروڑ روپے رکھے گئے ہیں ابھی تک اس بجٹ کو استعمال میں نہیں لایا جارہا ۔
اگر سال کے ابتداء میں یہ فنڈ مرمت کے لئے ریلیز نہیں ہوئی تو زیادہ گمان ہے کہ یہ فنڈ واپس حکومتی خزانے میں چلی جائے گی۔
وفاقی حکومت کا بلوچستان کے ساتھ سلوک کچھ اچھا نہیں ہے ۔ بلوچستان میں سڑکوں کی تعمیر اور دیکھ بھال کے لئے چند ایک ارب روپے مختص کیے گئے ہیں آثار یہ دکھائی دے رہے ہیں کہ یہ رقم بھی خرچ نہیں ہوگی ۔
بلوچستان پرشاید ہی کسی مالی سال میں وفاقی حکومت کی مختص شدہ رقم خرچ ہوئی ہو ، کم سے کم اس فنڈ کا نصف حصہ بچا لیا جاتا ہے جو وفاقی حکومت کے خزانے میں دوبارہ جمع ہوجاتی ہے ۔
نواز شریف کی ختم ہونے والی حکومت نے بلوچستان کو کوئی ایک مثالی میگا پروجیکٹ نہیں دیا۔ روایتی طورپر چند ایک جاری اسکیموں پر ایک آدھ ارب خرچ کیے گئے جبکہ اس کے برعکس بلوچستان کا ایک اہم ترین میگا پروجیکٹ دس فیصد کام کے بعد بند کردیا گیا ۔
کچھی کینال کا منصوبہ گزشتہ 25سالوں سے چل رہا ہے تازہ اطلاعات ہیں کہ کچھی کینال کو بگٹی قبائلی علاقہ تک محدود کردیا گیا ہے ۔
اندازہ ہے کہ اس پر اسی ارب روپے کے اخراجات آئے ہیں جو صرف 75ہزار ایکڑ زمین بگٹی قبائلی علاقے میں آباد کرے گی ۔
اس کا اصل منصوبہ کچھی کے میدانی علاقے کو سیراب کرتے ہوئے سات لاکھ ایکڑ زمین زیر کاشت لانا تھا اب منصوبہ موخر کردیا گیا ہے، اب بلوچستان کو اس کے حصے کا دس ہزار کیوسک پانی نہیں ملے گا اور سات لاکھ ایکڑ زمین آباد نہیں ہوگی ۔
جہاں تک سڑکوں کی بات ہے اس وسیع و عریض خطہ بلوچستان کی کراچی سے مند اور کراچی سے جیونی تک بڑی شاہراہ ہیں ’ اور دوسری طرف کراچی کو پنجگورسے ملانے ‘ گوادر کو رتو ڈیر و سے ملانے کا کام تسلسل کے ساتھ چلنا چائیے ۔
اب نئی سڑک ‘ یک مچھ ‘ خاران ‘ بسیمہ ‘ اور ناچ اور کراچی کو ملائے گی ۔ یہ آر سی ڈی ہائی وے سے بھی زیادہ اہم ترین شاہراہیں ہیں جن کو وقت سے پہلے مکمل کیاجانا چائیے جس سے ایران کے ساتھ تجارت میں اضافہ ہوگا۔
نئی آر سی ڈی شاہراہ ‘ 400کلو میٹر کم ہے خصوصاً کراچی سے زاہدان تک ‘ اس لیے این ایچ اے کو چائیے کہ وہ آر سی ڈی ہائی وے کے خستہ سیکشن کی مرمت اور بحالی کاکام کرے تاکہ انسانی زندگی محفوظ ہو اور لوگ کم سے کم وقت میں 600کلو میٹر کا سفر کر سکیں ۔
ہم توقع رکھتے ہیں کہ پچاس کروڑ روپے کی رقم آر سی ڈی ہائی وے کی مرمت پر ہی خرچ ہوگی ۔