|

وقتِ اشاعت :   July 31 – 2017

1983کی ایم آر ڈی تحریک کا پاکستان کی سیاست میں کلیدی کردار رہا ۔ اس نے سب سے پہلے فوجی جنتاکو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور فوجی آمر کو مجبور کیا کہ غیر سیاسی بنیادوں پر سیاسی انتخابات کرائے ۔

تمام بڑی اور مقتدر پارٹیوں نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا او رپورا میدان حکومت کے حمایتی نووارد سیاستدانوں خصوصاً میاں نواز شریف اور چوہدری نثار جیسے غیر سیاسی لوگوں کے لئے راہ ہموار کی گئی کہ وہ آئیں اور ملک پر حکومت کریں ۔

جماعت اسلامی واحد سیاسی پارٹی تھی جو باقاعدہ سیاست اور انتخابات میں حصہ لیتی رہی بلکہ سیاسی کارکن اور دانشور حضرات جماعت اسلامی کو مارشل لاء کی ’’ بی ٹیم ‘‘ قرار دیتے تھے ۔

جنرل ضیاء کے ابتدائی دور میں جماعت اسلامی کا حکومت پر خاصہ اثر ورسوخ تھا ۔ 1985ء کے غیر سیاسی انتخابات میں زیادہ تر رہنماؤں کا تعلق میونسپل کونسلرز ‘ بی ڈی ممبرز اوراسی طرح کے غیر معروف لوگوں سے تھا جو انتخابات جیت کر آئے ۔

اگر سیاسی بنیادوں پر انتخابات ہوتے تو چوہدری نثار اور میاں نواز شریف جیسے کماش کے لوگ کبھی بھی الیکشن نہیں جیت سکتے تھے ۔

1983ء کی ایم آر ڈی تحریک میں پورے پنجاب پر خوف طاری تھا کہ دیگر صوبوں کے لوگوں نے ریاست کے خلاف بغاوت کردی ہے کیوں کہ وہاں لاکھوں افراد پر مشتمل جلوس نکالے گئے۔

ملکی حالات نے مقتدرہ کو خوفزدہ کردیا ، اس دوران یہ فیصلہ ہوا کہ پنجاب میں ترقی کی رفتار تیز تر کردی جائے ، ہر طرح سے دولت پنجاب کی ترقی پر خرچ کی جائے اس کے لئے نواز شریف کا انتخاب کیا گیا اور صنعت کاروں اور تاجروں کو ترغیبات دیں گئیں کہ وہ پنجاب میں زیادہ سے زیادہ کارخانے لگائیں۔

اس کے برعکس ایم کیو ایم بنا کر سندھ کی معیشت کو جان بوجھ کر مفلوج کردیا گیا۔

پنجاب سے سینئر سرکاری ملازم اور بیورو کریٹ کراچی آئے اور گجراتی بولنے والوں کو زیادہ سے زیادہ مراعات کی پیش کش کی کہ وہ اپنی صنعتیں پنجاب منتقل کریں ، وہاں ان کو بجلی اور گیس مفت فراہم کی جائے گی، ان کو ٹیکس کی چھوٹ ہوگی ۔ مزدور تحریک کو زبردست قوت کے ساتھ کچل دیا جائے گا۔

جب بلوچستان سے ٹیکس مراعات وفاقی حکومت نے واپس لے لیں تو حب کے صنعت کاروں نے اپنی صنعتیں پنجاب منتقل کیں ۔

ایک انداز ے کے مطابق حب اور وندر کے علاقے سے 300سے زائد کارخانے پنجاب منتقل ہوگئے کیونکہ وفاقی حکومت نے سندھ اور بلوچستان سے تمام ٹیکس مراعات واپس لے لیں تھیں جبکہ پنجاب میں اس سے بڑھ کر ٹیکس مراعات دی جارہی تھیں تاکہ صنعتوں کارخ پنجاب کی طرف موڑا جائے۔

اس کے ساتھ ملک کے اندر سیاست کو تاجروں کے حوالے کردیاگیا، تاجروں نے بھی خوب فائدے اٹھائے اور اب پنجاب میں ہزاروں کی تعداد میں ارب پتی ملیں گے ۔ جبکہ دیہی سندھ اور بلوچستان میں شاید ایک آدھ ارب پتی ہے ۔

تاجر حکمرانوں اور ان کے قریبی دوستوں نے خوب لوٹ مار کی اور کھربوں روپے کمائے۔ نواز شریف چونکہ تاجر تھے اس لیے تمام ریاستی اور سرکاری اختیارات استعمال کیے اور اپنے ذاتی اور خاندانی بزنس کو فروغ دیا ۔

ان کی سیاست میں دلچسپی صرف او رصرف خرید وفروخت کی حد تک تھی وزیراعظم کے روپ میں وہ ایک بادشاہ تھے چار سالوں کے دوران انہوں نے 80ممالک کے دورے کیے ۔

بر طرفی اور نا اہلی سے ایک دن پہلے وہ مالدیپ میں تھے اس لیے انہوں نے وزیر خارجہ مقرر نہیں کیا ،وہ خود وزیر خارجہ تھے اور بیرونی ممالک کے دورے خود کرتے تھے ۔

ساتھ ان کے مشیر ضرور ہوتے تھے اگر وہ وزیر خارجہ مقرر کرتے تو شاید اتنے کم وقت میں اسی ممالک کے دورے نہیں کرتے ۔موصوف کو کابینہ ‘ پارلیمان سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ، انہوں نے پارلیمان کا رخ ایک آدھ بار کیا ۔

اس طرح نواز شریف نے جمہوریت کی نفی کی اور شخصی طورپر احکامات چلاتے رہے ۔

وہ حکومت اور سیاست کو تجارت سمجھتے تھے اور ہر جگہ خرید و فروخت کی کوشش میں لگے رہتے تھے بلکہ انہوں نے سیاسی اقتدار کو زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کا ذریعہ سمجھا اور اس کو استعمال کیا ۔

تاجر کی حکمرانی نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا، اب کسی دوسرے تاجر کو حکمران نہ بنائیں ۔