توقع کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنے بھائی شہباز شریف کو وزیراعظم کے مستقل عہدے کے لئے نامزد کردیا ۔ اس کی منظوری اجلاس میں موجودہ پارلیمانی پارٹی کے اراکین اور صوبائی وزرائے اعلیٰ نے دی ۔
دوسرے الفاظ میں نواز شریف نے اپنی رائے مسلط کردی۔ نواز شریف کسی دوسرے شخص پر اعتبار نہیں کر تے کیونکہ انہیں خطرہ ہے کہ کوئی دوسرا شخص ان کے خاندان کے ناجائز مفادات کا تحفظ نہیں کر سکتا۔
پانامہ فیصلے کے بعدپورے خاندان کو نیب ریفرنسوں کا سامنا ہے ۔ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق نیب جلد سے جلد ریفرنس دائر کرے گی اور متعلقہ عدالت چھ ماہ میں ان تمام ریفرنسوں کا فیصلہ کر یگی جو سابق وزیراعظم اور ان کے خاندان کے خلاف دائر کیے جائیں گے ۔
ایک ریفرنس سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف بھی دائرکرنے کا حکم دیا گیاہے کیونکہ ان کی دولت ان کے معلوم ذرائع آمدن سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ دوسری جانب نواز شریف اور اس کے پورے خاندان نے میاں شہباز شریف سے یہ توقع وابستہ کررکھا ہے کہ وہ ان کو مشکلات سے نکالے گا مگر میاں شہباز شریف خود ہی مشکلات کا شکار ہیں ان کے خلاف تین مقدمات سنگین نوعیت کے ہیں ان میں چوہدری شوگر ملز‘ حدیبیہ ملز اور ماڈل ٹاؤن میں ڈاکٹر طاہر القادری کے حمایتوں کا قتل عام شامل ہیں۔
کم سے کم دو کیسوں ‘ چوہدری شوگر ملز اور حدیبیہ ملز کے مقدمات میں ان کے خلاف ریفرنس داخل کیے جانے کا امکان ہے ۔
سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت نیب عدالت میں نواز شریف ‘ شہباز شریف اور ان کے خاندان کے لوگوں اور رشتہ داروں کے خلاف مقدمات دوبارہ کھولے جائیں گے۔
نیب کی یہ ظالم تلوار شہباز شریف کے گردن پر لٹکتی نظر آرہی ہے ۔ ظاہر ہے کہ حزب اختلاف کی تمام اہم پارٹیوں کی یہ کوشش ہوگی کہ شہباز شریف قومی اسمبلی تک نہ پہنچنے پائیں اور اس کو قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں ہی شکست دی جائے ۔
اس سلسلے میں تحریک انصاف نے اپنا امیدوار نامزد کردیا ہے امید ہے کہ دوسری سیاسی پارٹیاں بھی ان کی حمایت کریں گی تاکہ شہباز شریف کو ضمنی انتخابات میں شکست دی جائے ۔
یہ بات تو طے ہے کہ موجودہ مخدوش سیاسی صورت حال میں پنجاب کی جہاں دیدہ نوکر شاہی شہباز شریف کے احکامات کی تعمیل نہیں کرے گی ۔
دوسرے معنوں میں شہباز شریف کی ایماء پر انتخابات میں دھاندلی کے امکانات کم تر نظر آرہے ہیں اوراس کے زیادہ امکانات ہیں کہ شہباز شریف کو ضمنی انتخابات میں شکست ہو ۔
یہ ایک طرح سے پی پی پی ‘ جماعت اسلامی ‘ مسلم لیگ (ق) کے مفاد میں ہوگا۔ جس طرح کچھ سیاستدان مسلم لیگ ق سے لوگ مسلم لیگ ن میں شامل ہوئے تھے اب وہ دوبارہ مسلم لیگ ق کا رخ کریں گے
اس میں خواجہ آصف ‘ سعد رفیق ‘ عابد شیر علی اور اسحاق ڈار کابینہ کا حصہ نہیں ہوں گے۔لیکن نئی حکومت نئی کابینہ اور نئے وزراء سابق وزیراعظم اور اس کے خاندان کی کوئی خاص امداد نہیں کر سکیں گے، ان کو مکافات عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سابق وزیراعظم عرب بادشاہوں اور حکمرانوں سے زبردست انداز میں متاثر تھے اور پاکستان جیسے جمہوری ملک میں وہ ان کی نقالی کرتے تھے اس لیے بعض سیاسی مخالفین ان کو بادشاہ ہونے کا طعنہ دیتے تھے اوران کا طرز عمل بھی بادشاہوں جیسا تھا ان کو صرف اور صرف چاپلوسی پسند تھی
اس لیے انہوں نے ایک بارپھرصدر کے عہدے لئے ایک چاپلوس فرد کو چنا ۔ موصوف کے ارد گرد ہر وقت خوشامد پسند لوگوں کا جھمگٹا لگا رہتا تھا۔
سردار ذوالفقار کھوسہ ‘ لیاقت جتوئی ‘ ممتاز بھٹو ‘ غوث علی شاہ جیسے لوگ ان کو پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ نواز شریف ان سے فون پر بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔
اگروہ سیاسی لیڈر ہوتے تو معمولی تاجروں کے بجائے و ہ ان سیاسی قدآور شخصیات کی قدر کرتے ۔
جلد یا بدیر مسلم لیگ ن میں بڑے پیمانے پر اختلافات سامنے آئیں گے جن لوگوں اور خصوصاً قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین کو نواز شریف اور شہباز شریف نے نظر انداز کیا اب وہ توقع کے مطابق زیادہ سیاسی سرگرمی دکھائیں گے اور شریف خاندان سے پرانا ادھار چکائیں گے۔
ایسے لوگوں کی تعداد اسی سے زائد ہے اور سو سے زائد صوبائی اسمبلی کے اراکین ہیں بہت کم لوگ تحریک انصاف یا پیپلزپارٹی کا رخ کریں گے زیادہ تر لوگ مسلم لیگ ق کا رخ کریں گے جس کے لئے چوہدری پرویز الہٰی اپیل کر چکے ہیں شاید نواز شریف اور اس کا پورا خاندان پاکستان کی سیاسی تایخ کا ایک سابق باب ہوگا۔