کوئٹہ: سینیٹ آف پاکستان کے چیئرمین سینیٹر میاں رضا ربانی نے پارلیمان کی طرف سے ایگزیکٹیو،عدلیہ اور ملٹر بیورو کریسی کو مباحثے کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کے استحکام کیلئے ’’انسٹیٹیوشنل ڈائیلاگ ‘‘کی اشد ضرورت ہے۔
ایگزیکٹیو،عدلیہ اور پارلیمان کے درمیان اختیارات کے ثلاثی تقسیم کا بنیادی آئینی تصور ڈگمارہا ہے، تینوں ادارے ایک دوسرے میں مداخلت اور ایک دوسرے پر حاوی ہونے کی کوشش کررہے ہیں ،پارلیمان سب سے کمزور ادارہ بن گیا ہے جو چاہتا ہے اس پر چڑھائی کردیتا ہے ۔
اسمبلیاں توڑنے کی آئینی شق ختم ہوئی تو اب نیا طریقہ کار سامنے آگیا، اداروں کی مضبوطی کی کوشش میں ہم پیشرفت کی بجائے پیچھے جارہے ہیں،سویلین کو اسلام آباد یا راولپنڈی میں بیٹھے کسی بھی شخص سے حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں۔ ریاست غیرملکیوں کی حفاظت کیلئے تو اسپیشل سیکورٹی ڈویژن بناتی ہے لیکن اپنے شہریوں کے جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہوچکی ہے۔
انہوں نے ان خیالات کا اظہار کوئٹہ کے بوائے اسکاؤٹس ہیڈکوارٹر میں شہید باز محمد کاکڑ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ‘‘کوئٹہ میں امن کیسے آئے گا’’ کے موضوع پر منعقدہ قومی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
سیمینار 8اگست 2016ء کو سول ہسپتال کوئٹہ میں خودکش حملے کے نتیجے میں شہیدہونیوالے بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر باز محمد اور53 دیگر وکلاء سمیت 80 سے زائد افراد شہید کی یاد میں منعقد کیا گیا تھا۔
اس موقع پر پیپلز پارٹی کے رہنماء چوہدری اعتزاز احسن، بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع، عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی، بلوچ رہنماء ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ اور دیگر سیاسی ، سماجی اور وکلاء رہنماء بھی موجود تھے۔
سینیٹر میاں رضا ربانی نے اپنی تقریر میں سانحہ 8اگست کے شہداء بالخصوص باز محمد کاکڑ کو سلام پیش کیا اور کہا کہ وہ ان ماؤں، بہنوں اور بیویوں کو بھی سلام پیش کرتے ہیں جو اب تک اپنے شہید ہونیوالے باپ،بیٹے،بھائی یا خاوند کی راہ تک رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج ہم اس سیمینار میں پاکستان کے ان عظیم ثپوتوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے اکٹھے ہوئے ہیں جنہوں نے عملی جدوجہد کرتے ہوئے شہادت کا جام نوش کیا۔ آج ہمیں اس بات کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ جن اصولوں اور اقدار کیلئے ان شہداء نے عملی جدوجہد کی ، کیا گزشتہ ایک سال کے دوران ہم اسے پانے کی کوشش میں کامیاب ہوئے یا نہیں۔
آج یہ بات عیاں ہے کہ قانون کی حکمرانی،جمہوریت اور اداروں کی مضبوطی کی جدوجہد میں ہم پیشرفت تو کجا ، پیچھے کی طرف جارہے ہیں۔ رضا ربانی نے کہا کہ یہاں گریژن اسٹیٹ کی بات کی گئی، یہاں پر یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ پاکستان اس وقت بھی گریژن اور نیشنل سیکورٹی اسٹیٹ ہے لیکن ہم نے اس بات کا تہیہ کر لیا ہے ۔
سویلین کو کسی بھی شخص سے چاہے وہ اسلام آباد میں یا راولپنڈی میں بیٹھا ہوا ہوں سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ سیکورٹی اسٹیٹ کی ترجیحات تبدیل ہوجاتی ہیں۔
آئین کے تحت ریاست کی جو اپنی ترجیح ہے وہ پاکستان کے شہریوں کے جان و مال کا تحفظ ہے لیکن مجھے اس بات پر حیرت ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے کہ ہماری ریاست کی ترجیح یہ تو ضرور ہے ۔
سی پیک سے آئے ہوئے لوگوں کو سیکورٹی فراہم کرنے کیلئے اسپیشل ڈویژن بنادی جائے لیکن اپنے شہریوں کو ہم سیکورٹی دینے میں اور ان کے جان و مال کے تحفظ میں ہم ناکام ہوچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ سی پیک کے مخالف نہیں لیکن آئین و قانون کی بات کرتے ہیں۔ آئین میں ریاست کا فرض اپنے شہریوں کے جان و مال کا تحفظ ہے۔
اگر آج باز محمد کاکڑ زندہ ہوتا اور ریاست نے انہیں تحفظ دیا ہوتا تو آج ان کو(غیرملکیوں) کو سیکورٹی دینے کی ضرورت نہ پڑتی۔
رضا ربانی نے کہا کہ بعض دوستوں نے یہاں پر یہ بات کی کہ یہاں نہ صوبائی حکومت اور نہ ہی وفاقی حکومت۔
ان کی یہ آبزرویشن شاید درست ہے اور وہ اس لئے کہ اعتزاز احسن ، باز محمد کاکڑ ایڈووکیٹ شہید اور دیگر شہداء اور وکلاء نے جس آئین کے تحفظ اور بالادستی کیلئے جدوجہد کی آج وہ آئین ڈگمارہا ہے اور جب آئین ڈگماتا ہے تو ریاست کی صورتحال ایسی بن جاتی ہے کہ افرا تفری پیدا ہوجاتی ہے۔
آج کل آپ دیکھ رہے ہیں کہ ایگزیکٹیو پارلیمان پر حملہ آور ہوتی ہے۔ ایگزیکٹیو جوڈیشری کے کاموں میں مداخلت کرتی ہے۔جوڈیشری پارلیمان کے کاموں میں حاوی ہونے کی کوشش کرتی ہے۔
جوڈیشری اپنے ایگزیکٹیو کے اوپر حاوی ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ concept of trichotomy of powwer(اختیارات کے ثلاثی تقسیم کا تصور )جو آئین کی بنیاد ہے جس میں ہر ادارے کی اپنی آئینی حدود کا تعین کیا گیا ہے ، وہ ڈگمارہا ہے۔
اس میں آج سے نہیں بلکہ تاریخی طور پر سب سے زیادہ کمزور ادارہ رہا ہے وہ پارلیمان ہے اور یہ حیرت کی بات ہے۔
انہوں نے تقریب میں شریک وکلاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ آئین کے ایک ایک لفظ سے واقف ہیں۔
آئین پاکستان میں واضح لکھا گیا کہ حکومت عوام کے منتخب کردہ افراد کی ہوگی اور لوگوں کے منتخب نمائندے کہاں ہوتے ہیں ،وہ پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں میں ہوتے ہیں لیکن پارلیمان آج کمزور ترین ادارہ بن گیا ہے جس کا دل کرتا ہے اس پر چڑھ دوڑتا ہے۔
پارلیمان کو کبھی مارشل لاء کے ذریعے ختم کردیا جاتا تھا۔ پھر ایک آمر آیا اور اس نے آئین میں اسمبلیاں توڑنے کی آئینی شق 58 ٹو بی شامل کیا جب جمہوری قوتوں نے اس کے خلاف جدوجہد کی اور آئین کی اس شق کو ختم کردیا تو پھر نیا طریقہ آج ہمارے اور آپ سب کے سامنے آگیا ہے۔
چیئرمین سینیٹ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہ بات اس لئے نہیں کہہ رہے ہیں کہ وہ اداروں کے درمیان محاذ آرائی چاہتے ہیں۔
یہ بات کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی ایگزیکٹیو، عدلیہ اور پارلیمان کو آئین کے اندر اپنی حدود کے اندر رہتے ہوئے کام کرنا ہے۔
پھر یہ کہتا ہوں کہ کہ جس ڈگر اور نہج پر پاکستان اور وفاق پاکستان کھڑا ہے اس میں ہم محاذ آرائی کے متحمل نہیں ہوسکتے لہذا آج شہداء کے اس عظیم الشان سیمینار میں وہ پارلیمان کی طرف سے ان تمام اسٹیک ہولڈرز کو انٹرانسٹیوٹشنل ڈائیلاگ(اداروں کے درمیان مباحثے) کی دعوت دیتے ہیں۔
چاہے وہ ایگزیکٹیو ہو، جوڈیشری یا ملٹری بیورو کریسی ان کے درمیان ’’انٹراانسٹیوٹشنل ڈائیلاگ ‘‘کی اشد ضرورت ہے۔ملک کے استحکام ، دہشتگردی کے خاتمے اور غربت کو مٹانے کیلئے یہ ڈائیلاگ ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ سینیٹ آف پاکستان اپنا پلیٹ فارم اپنی کمیٹی آف دا ہول کی جانب سے ان تمام اداروں کو دعوت دیتی ہے کہ وہ آئیں بیٹھیں ، ہم آپ سے پارلیمان کی طرف سے کچھ نہیں مانگتے۔
ہم آپ سے صرف یہ کہتے ہیں کہ جو راستہ ، طریقہ اور جو حدود 1973ء کے آئین کے تحت اداروں کی مقرر کی گئی ہے ان کے اندر رہتے ہوئے وہ اپنا کام کریں۔
ایگر ایسا ہو تو یقینی طور پر ہم اس خواب کو پورا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے جو بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر باز محمد کاکڑ سمیت دیگر شہداء نے دیکھا۔
جس کا خواب پاکستان کر ان سیاسی کارکنوں نے جنہوں نے جیلیں کاٹیں، صعوبتیں برداشت کیں اور کوڑے کھائے جس کیلئے مائیں اور بہنیں سڑکوں پر نکلیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس خواب کو پورا کرنا ہے تو آپس میں یہ ڈائیلاگ کرنا پڑے گا۔
رضا ربانی نے تقریب کے میزبان شہید باز محمد کاکڑ کے بھائی ڈاکٹر لعل محمد کاکڑ کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ان شہداء کی تقریب میں شرکت کا اعزاز بخشا جنہوں نے آئین و قانون کی بالادستی کی جدوجہد میں جانیں قربان کیں۔