وزیراعظم کے عہدے سے نواز شریف کی بر طرفی کے بعد ملک میں ایک غیر یقینی کی صورت حال بنتی نظر آرہی ہے ۔ سیکورٹی اداروں کے مشورہ کے بعد بھی نواز شریف بضد ہیں کہ وہ جی ٹی روڈ سے ہی لاہور واپس جائیں گے حالانکہ وہ جہاز کی سواری کے دلدادہ تھے اور آئے دن جہاز میں سفر کرتے تھے ۔ آج اچانک ان کو شوق ہوا کہ وہ جی ٹی روڈ سے ہی لاہور جائیں گے۔
پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور سیکورٹی اداروں نے ان کو جی ٹی روڈ پر سفر کرنے سے منع کرتے ہوئے درپیش خطرات سے آگاہ کیا ہے ۔ مگر نواز شریف کا فیصلہ ہے کہ وہ سیکورٹی اداروں اور حکومت پنجاب کے مشورے کو رد کرتے ہیں اور اپنی مرضی کریں گے۔
گزشتہ دنوں اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ جی ٹی روڈ پر احتجاج کرنے نہیں جارہے لیکن ان کے عزائم سے نظر آتا ہے کہ وہ وسط پنجاب میں عوامی اجتماعات سے خطاب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جہاں وہ اپنی بر طرفی پر اپنا موقف بیان کریں گے بلکہ احتجاج کے لئے رائے عامہ ہموار کریں گے ۔
یا دوسرے الفاظ میں سپریم کورٹ اور دوسرے قومی اداروں پر اپنا دباؤ بڑھائیں گے ۔ یہ بات تو طے ہے کہ پنجاب کی صوبائی حکومت ان کو تمام تر سہولیات فراہم کرے گی ،ممکن ہے کہ وہ وسطی پنجاب کے شہروں میں بڑے بڑے اجتماعات سے خطاب کریں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ وسطی پنجاب مکمل طورپر ان کے ساتھ ہے ۔ اگر انتخابات ہوئے تو ان کی پارٹی دوبارہ انتخابات جیت کر حکومت بنائے گی ۔
اسی لیے شہباز شریف نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے اور طاقتور صوبے کی حکمرانی کرتے رہیں گے۔ یہ منصب وزیراعظم پاکستان کے منصب سے کم تر نہیں ہے۔ سارے سیاسی اور انتظامی قوتوں کا اصل منبع پنجاب ہے، وہ وزیراعلیٰ رہتے ہوئے اپنے خاندان ‘ اپنی پارٹی اور اپنے مصاحبین کی زیادہ بہتر طورپر خدمت کرتے رہیں گے، ان کے لئے پنجاب ہی پاکستان ہے ۔ ان عوامل سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ شریف خاندان کے عزائم کیا ہیں۔
ظاہر ہے شریف خاندان کو اس کھیل میں واک اور نہیں ملے گی۔ نیب کو چائیے کہ شریف خاندان سے متعلق تمام مقدمات کی روزانہ کی بنیاد پرسماعت کرتے ہوئے جلد سے جلد فیصلہ کرے تاکہ شریف خاندان کی سیاست کی دکان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بندہو جائے۔ دوسری طرف مخالف پارٹیاں میدان میں موجود ہیں ، وہ این اے 120میں کسی طرح بھی دھاندلی نہیں ہونے دیں گے۔
مسلم لیگ کے نمائندے کو شکست سے دو چار کرنا حزب اختلاف کی پارٹیوں کا نصب العین ہوگا مگر اس کے لیے عمران خان کو دوسری جماعتوں سے تعاون کرنا پڑے گا تاکہ حزب اختلاف کا واحد نمائندہ ضمنی انتخاب میں حصہ لے اور کامیابی حاصل کرے۔
چونکہ عمران خان کا رحجان سولو فلائٹ کی طرف ہے وہ حزب اختلاف کی اہم ترین پارٹیوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتے اس لئے یہ خدشات ر ہیں گے کہ حزب اختلاف کی پارٹیوں میں عدم تعاون کی وجہ سے شریف خاندان یہ نشست دوبارہ حاصل کرے گا جس کی تمام تر ذمہ داری عمران خان پر بھی ہوگی ۔
حالیہ دنوں میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے شیخ رشید کو پی ٹی آئی کا امیداوار برائے وزیراعظم نامزد کردیا اور حزب اختلاف کی پارٹیوں سے مذاکرات کو نقصان پہنچایا کہ مسلم لیگ کے خلاف حزب اختلاف کا ایک متحدہ امیدوار ہو ۔
اس بار پھر انہوں نے حزب اختلاف کی پارٹیوں سے مشورہ رکرنے سے پہلے یاسمین راشد کو ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی کا امیدوار نامزد کردیا اور ایک متحدہ حزب اختلاف کے امیدوار کا راستہ بند کردیا ۔اس طرح سے عمران خان نے دوسری پارٹیوں کو مجبور کردیا ہے کہ وہ بھی اپنے امیدوار کھڑے کریں اور یاسمین راشد کی شکست کو کو یقینی بنائیں۔
اگر شریف خاندان یہ نشست دوبارہ جیتتی ہے تو مسلم لیگ اور شریف خاندان کے ساکھ میں اضافہ ہوگا اور عمران خان کی سبکی ہوگی ،ان کی ’’ سولو فلائٹ ‘‘ کی شکست ہوگی ۔ ابھی بھی وقت ہے کہ عمران خان اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کریں اور حزب اختلاف کی دیگر پارٹیوں کو بھی اتنی ہی اہمیت دیں جو وہ اپنی پارٹی کو دیتے ہیں ۔