گزشتہ روز ضلع مستونگ کے علاقے کانک میں پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے دہشت گردوں کے ٹھکانے پر چھاپہ مار کر 4 انتہائی مطلوب دہشت گردوں کو ہلاک کردیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے پولیس کی کارکردگی کو سراہااور کامیاب کاروائی پر مبارکباد پیش کی ۔
انہوں نے کہا کہ امن وامان کے قیام کیلئے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں اور پولیس فورس دہشتگردوں کا جس طرح ڈٹ کا مقابلہ کررہی ہے وہ قابل تعریف ہے۔
وزیراعلیٰ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ حکومت دہشتگردی کے مکمل خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھے گی ۔اور پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی جاری رکھی جائے گی ۔
وزیراعلیٰ نے اس بات پر اطمینان کا اظہارکیا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں حکومت اور سیکورٹی اداروں کو عوام کی بھرپور تائید و حمایت حاصل ہے ۔
آئی جی پولیس احسن محبوب نے وزیراعلیٰ بلوچستان کو دہشتگردگروپ کے خلاف کی جانے والی کامیاب کاروائی کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ چند ماہ قبل گرفتار کئے جانے والے سعید نامی دہشتگرد کی نشاندہی پر بلوچستان پولیس نے مذکورہ دہشتگرد کو ساتھ لیکر دہشتگردوں کے ٹھکانے پر چھاپہ مارا ،اس دوران دہشتگردوں نے پولیس ٹیم پر فائرنگ کی ،جوابی فائرنگ میں تین دہشتگرد اور سعید نامی دہشتگرد بھی ہلاک ہوگیا۔
انہوں نے بتایا کہ دہشتگردوں کا یہ گروپ سول ہسپتال خود کش دھماکے، پولیس اور ایف سی اہلکاروں پر حملوں، سیکرٹری ایجوکیشن عبداللہ جان کے اغواء اور دہشتگردی کی دیگر کاروائیوں میں ملوث تھا ۔
انہوں نے مزید کہا کہ پولیس کی استعداد کو بڑھاتے ہوئے انہیں جدید ہتھیاروں سے لیس کرکے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کرنے کیلئے ہر قسم کے وسائل فراہم کئے جائیں تو بدامنی کے خاتمے کیلئے پولیس اہم کردار اداکرسکتی ہے۔
پولیس کے جوانوں نے دیدہ دلیری کے ساتھ مستونگ کے علاقے کانک میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرتے ہوئے چار اہم دہشت گردوں کو ہلاک کیا جو دہشت گردی کی سنگین وارداتوں میں ملوث تھے، یہ پولیس کا اہم اور بہترین کارنامہ ہے جسے ہر سطح پر سراہا جارہا ہے اور اس بات پر سب ہی اتفاق کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سیکیورٹی فورسز نے بڑی قربانیاں دی ہیں اور خاص کر پولیس کو غیر سیاسی طور پر ہی دیکھاگیا ہے۔
بلوچستان میں صوبائی حکومت اور عسکری قیادت دہشت گردی کے خلاف ایک پیج پر نظرآتے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف سیاسی وعسکری قیادت ملکر پالیسی ترتیب دیتے ہیں۔
بلوچستان میں سب سے اہم مسئلہ شدت پسندی کا ہے، شدت پسندوں کے خلاف مؤثر کارروائی ناگزیر ہوچکی ہے کیونکہ اب تک جتنے بڑے سانحات بلوچستان میں رونما ہوئے ہیں ان میں شدت پسند تنظیموں کا ہاتھ رہا ہے۔ گزشتہ دنوں پاک فوج کی گاڑی کو نشانہ بنایاگیا جس میں 15 افراد شہید ہوئے جن میں پاک فوج کے جوان بھی شامل تھے۔
موجودہ حالات کا تقاضہ یہی ہے کہ شدت پسندوں کے گرد گھیراتنگ کرتے ہوئے ان کے خلاف بھرپور کارروائی عمل میں لائے۔مگر ہر عمل کچھ احتیاط کا متقاضی بھی ہوتا ہے کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ جب سیکورٹی فورسز کسی شہری علاقے میں کاروائی یا آپریشن کرتے ہیں تو عام لوگوں کو بھی دہشت گردوں کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔
انہیں ہر شخص دہشت گرد نظر آتا ہے اور بعض بے قصور لوگ بھی مفت کی مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں کیونکہ جب کسی علاقے سے دوران آپریشن پچاس ، سو یا جتنے بھی بندے پوچھ گچھ کے لیے اٹھائے جاتے ہیں ۔
ان کی واپسی آسانی سے نہیں ہوتی، اس کرب کا اندازہ ان کے عزیز رشتہ داروں کو ہوتا ہے جو ذہنی اذیت کے ساتھ ساتھ مالی نقصان بھی برداشت کرتے ہیں۔
لہذا دہشت گردوں کو پکڑیں ،سزا دیں لیکن عام لوگوں کو دہشت گرد بناکر پیش نہ کریں ۔محبت بانٹیں ، دلوں کو جیتنے کی کوشش کریں کیونکہ یہی کام آتی ہے اور یہی امن سورج کے نکلنے کی ضمانت ہوگی۔