نیب کے مطابق بااثر افراد نے 3ہزار 167ایکڑکی سرکاری اراضی کی غیر قانونی حصول کیلئے کرپشن کا بازار گرم کررکھا ہے، لینڈمافیا نے متعلقہ زمین پر قبضہ کرنے کیلئے قانونی پیچیدگیاں پیدا کی ہیں۔ غیر قانونی اراضی کی تقسیم اور بندربانٹ میں ملوث عناصر کے خلاف تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے۔
نیب ترجمان کاکہنا ہے کہ مقامی بااثر افراد نے جعل سازی اور کرپشن کے ذریعے 12 ہزار ایکڑ زمین اپنے نام کرائی ہے۔ حکومت کی جانب سے کارروائی کے بعد اراضی کو لینڈمافیا کی چنگل سے چھڑایاگیاہے، لینڈمافیا نے ریونیو افسران کی ملی بھگت سے 3167ایکڑ زمین دوبارہ اپنے نام کردیاہے، حکومت بلوچستان نے متعلقہ اراضی لینڈمافیا کے قبضہ سے چھڑانے کیلئے کیس ایس ایم بی آر کے فل بنچ کے سامنے پیش کردیا ہے۔
سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے والے جعل سازوں کو قانون کے کٹہرے میں لایاجائے گا۔ گوادر میں لینڈمافیا کا راج پہلے سے ہی واضح تھا کیونکہ گوادر کی زمین کی قیمتوں میں اتارچڑھاؤ انہی کی مرہون منت ہے، ضلع گوادر میں اس وقت زمین کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں جس کی اہم وجہ سی پیک منصوبہ ہے جو آنے والے وقت میں خطے میں گیم چینجر کاکردار ادا کرنے جارہا ہے۔
اس سے قبل بھی گوادر کی زمینوں میں بندر بانٹ کا سلسلہ چلتا رہا ہے جس میں بڑے مگر مچھوں کا ہاتھ ہے اور نیب کی حال ہی میں کارروائی میں شاید ایسے نام منظر عام پر آجائیں جنہوں نے بڑے پیمانے پر زمینوں کے حوالے سے کرپشن کی ہے۔ گوادر میں زمینوں کی بیشتر لین دین کا معاملہ بلوچستان سے باہر ہی ہوتا ہے اور ڈیلرز کا تعلق بھی کراچی ،لاہورجیسے شہروں سے ہے جس کی تصدیق مقامی افراد کرچکے ہیں۔
گوادر میں زمینوں کے حوالے سے اتنی بڑی کرپشن وہاں کے عوام کے ساتھ سراسر ظلم وزیادتی ہے، اس سے قبل گوادر کے ماہی گیروں کو زمین الاٹ کرنے کا وعدہ کیا گیا اور اس کے ساتھ سرکاری ملازمین کیلئے بھی اسکیمات شامل تھیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہوا ۔ گوادر ماہی گیروں کا ڈیرہ ہے ،وہ آج بھی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں حد تویہ ہے کہ جھونپڑی میں زندگی بسر کرتے ہیں مگرحکومت سمیت انتظامیہ ان کی معاشی بہتری کے لیے حرکت میں نہیں آتی۔بہرحال اگر حقیقی معنوں میں تحقیقات کی جائیں ۔
اس خرد برد میں ذرائع کے مطابق پنجاب کے سیاستدان میں بھی ملوث ہیں مگر اس کا فیصلہ شفاف طریقے سے ہونے والی تحقیقات کے بعد ہی آئے گا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ گوادر کے عوام آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں کیونکہ ان کے سونے جیسی زمینوں کو کرپشن کے ذریعے خرد برد کیا جارہاہے ۔
قابل افسوس امر ہے کہ جس ضلع سے آنے والے وقت میں بلوچستان سمیت ملک و خطے میں معاشی سرگرمیاں شروع ہونے جارہی ہیں ،وہاں پر بڑے پیمانے پر کرپشن پہلے سے ہی شروع کردی گئی ہے اس سے یہ تاثر جائے گا کہ یہ خوشحالی محض چند طبقے کیلئے ہوگی ۔ اگر واقعی سی پیک گوادر سمیت ملکی عوام کیلئے خوشحالی کے نئے دروازے کھولے گی تو ان لوگوں پر ہاتھ ڈالنا انتہائی ضروری ہے وگرنہ بلوچستان کے عوام پھر مایوسی کا شکار ہونگے ۔
آج تک بلوچستان کو اس کے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے صرف گوادر ہی نہیں بلکہ بلوچستان کے پہاڑوں میں سونا، تانبا،کاپر، سنگ مرمر سمیت تیل وگیس کے بڑے ذخائر موجود ہیں اوران سے ایک مخصوص طبقے نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے اور بلوچستان کے عوام کو اس کا ایک آنہ تک نہیں ملا۔
بلوچستان کا پہلے بھی وفاق کے ساتھ کشیدگی کی سب سے بڑی وجہ یہی رہی ہے کہ بلوچستان کو اس کا حق نہیں دیا جاتا۔ بلوچستان کے ساتھ یہ رویہ 70 سالوں سے جاری ہے جس کی وجہ سے عوام میں شدید غصہ پایا جاتا ہے اور ردعمل میں انہوں نے جو رویہ اپنا وہ سب کے سامنے عیاں ہے۔
بلوچستان کی محرومیوں کا فائدہ دشمن ممالک نے ہی اٹھایا ہے اصل ذمہ دار تو ہمارے ہی حکمران ہیں جنہوں نے اس لوٹ کھسوٹ کے ذریعے پیسہ بنایا ،آف شور کمپنیاں بنائیں، پیسہ بیرون ممالک منتقل کیااور عوام کے حصہ میں صرف بزگی ہی آئی۔
اب یہ ذمہ داری تمام سیاسی جماعتوں کی بنتی ہے کہ بلوچستان میں ہونے والی کرپشن اورلوٹ کھسوٹ کے خلاف آواز بلندکرتے ہوئے ایوان میں بلوچستان کی نمائندگی کریں اور موجودہ حکومت امن کے ساتھ ساتھ کرپشن میں ملوث افراد پر بھی ہاتھ ڈالے اوربغیر کسی رعایت کے ان کو سخت سزا دے تاکہ ایک مثال قائم ہو۔
سب سے پہلے بلوچستان حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس پر اپنا کردار کس طرح ادا کرتی ہے اور گوادر میں زمینوں پر ہونے والی کرپشن کے خلاف مزید کارروائیوں کے لئے کیا اقدامات اٹھاتی ہے ۔