اسلام آباد : چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ ڈونلڈٹرمپ چاہتے ہیں کہ پاکستان امریکی افواج کا قبرستان بن جائے تو ہم امریکہ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ وزیر خارجہ کو دورہ امریکہ ملتوی کردینا چاہئے نہ جانے سے اچھا پیغام جائے گا۔
بدھ کو سینیٹ اجلاس کے دوران چیئرمین سینیٹ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پالیسی بیان پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی قوم میں ویت نام اور کمبوڈیا والی خصوصیات اورروایات پائی جاتی ہیں اگر امریکہ کے صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ پاکستان امریکی افواج کا قبرستان بن جائے تو ہم امریکہ کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔
چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ میری رائے ہے کہ وزیر خارجہ کو ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کے تناظر میں دورہ امریکہ ملتوی کردینا چاہئے ، جانے کی بجائے وہاں نہ جانے سے اچھا پیغام جائیگا۔
اراکین سینیٹ نے چیئرمین سینٹ رضاربانی کی تجاویز کا ڈیکس بجاکر خیر مقدم کیا اس سے قبل چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے پاکستان کے خلاف امریکی صدر کے دھمکی آمیز بیان پر سخت احتجاج کیلئے حکومت کو وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کے دورہ واشنگٹن کی منسوخی کا مشورہ دے دیا، انہوں نے کہاہے کہ حکومت پاکستان کے اس اقدام کااچھا پیغام جائے گا۔اس امر کا اظہار انہوں نے بدھ کو اجلاس کی کارروائی کے دوران کیا۔ چیئرمین سینیٹ کے استفسار پر ایوان میں موجود وزیر دفاع انجینئر خرم دستگیر نے بتایا کہ وزیر خارجہ چند دنوں میں امریکہ جا رہے ہیں۔
امریکی ہم منصب سے مذاکرات کیلئے جا رہے ہیں۔ چیئرمین سینیٹ نے مشورہ دیا ہے کہ کیا ان حالات میں بھی وزیر خارجہ کا دورہ ہو سکتا ہے، وزیر خارجہ کے دورہ امریکہ کو مسترد کر دینا چاہیے، اچھا پیغام جائے گا، امریکی صدر کے پاکستان کے خلاف بیان پر وزیر خارجہ کے دورہ واشنگٹن پر نظرثانی کی جائے اپوزیشن کی طرف سے سینیٹ میں بدھ کو امریکی صدر کی پاکستان کو کارروائی کی دھمکیاں دینے پر امریکی سفیر کی طلبی کا مطالبہ کر دیا گیا۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پالیسی وضع کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے، گزشتہ روز 22اگست کے امریکی صدر کے پاکستان اور افغانستان سے متعلق تقریر کے نتیجہ میں پیدا شدہ صورتحال پر سینیٹ میں بحث کروائی گئی، پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر اعظم سواتی نے مطالبہ کیا کہ امریکی صدر نے پاکستان کی خود مختیاری کا لحاظ رکھے بغیر بیان دیا ہے۔
فوری طور پر امریکی سفیر کو طلب کر کے پاکستان کے عوام کے جذبات احساسات سے آگاہ کیا جائے، پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کر کے امریکہ کو پاکستانی قوم متحد ہونے کا پیغام دیا جائے۔
چین کا رسپانس ہمارے لئے انتہائی اہم ہے، ہماری نمائندگی کی ہیپاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کے بیان کو ہمیں آسان نہیں لینا چاہیے امریکن صدر کے تیور دیکھتے ہوئے ہمیں ایشیاء اور ایران ‘ افغانستان سے تعلقات کو مربوط بنانے چاہئیں۔
جمعرات کے روز سینٹ میں تحریک التواء پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قطع نظر اس کے کہ امریکن صدر نے کیا کہا اور کیا کہنا چاہتے تھے ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہوگا۔
ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا آج بھی ایسی کالعدم تنظیمیں موجود ہیں جو دوسرے نام استعمال کررہی ہیں۔ ہمیں اب فیصلہ کرنا ہے کہ کیا واقعی ایسی تنظیمیں کام کررہی ہیں اور ہمیں انہیں کیسے ختم کرنا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات یقیناً امریکی مفادات کی نشاندہی کرتے ہیں،صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اور صدرٹرمپ کے بیانات میں فرق امریکی سسٹم کی نشاندہی کرتا ہے کہ کیسے وہاں پر ادارے کا م کرتے ہیں ،
کوئی شخص کسی بھی پالیسی پر اثر انداز نہیں ہوسکتا۔جمعرات کے روز سینٹ اجلاس میں امریکی صدر کی جانب سے دئیے گئے حالیہ بیانات پر تحریک التواء پیش کرتے ہوئے اس پر اظہار خیال کر تے ہوئے سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ امریکی صدر کو دیکھنا چاہیے تھا کہ امریکہ نے اس خطے میں 16 سال گزارنے کے باوجود کیا حاصل کیا ہم 17 ہزار جانوں کے نذرانے پیش کرنے اور اربوں روپے کے اضافی بوجھ کو برداشت کرنے کے بعد بھی ہم پر دہشت گردون کو پناہ دینے کا الزام لگایا جاتا ہے ۔
ہیلری کلنٹن تسلیم کر چکی ہیں طالبان امریکہ کی اپنی پیداوار ہیں حقیقت یہی ہے کہ دہشت گردوں کی پناہ گاہیں اور پشت پناہی امریکہ ہی کررہا ہے۔سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد پی پی پی حکومت کی طرف سے نیٹو سپلائی معطل کرنے کی پالیسی موجودہ صورتحال میں بھی اپنانا ہوگی۔
امریکہ میں خطے میں عدم توازن اور تباہی دیکھنا چاہتا ہے امریکہ کا بزنس مائنڈ اگر پاکستان کیلئے خطرہ بنے گا تو پاکستان کا بچہ بچہ انے ملک کے دفاع کیلئے کھڑا ہوگا پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیریں رحمن نے کہا کہ امریکی صدر کے بیان پر چین کے ردعمل کے بعد پاکستانی دفتر خارجہ کا ردعمل آنا افسوسناک ہے۔
آج امریکن سفیر کے سامنے آرمی چیف کی جانب سے سے امریکن امداد کی ضرورت نہ ہونے سے متعلق سامنے آنے والے بیان کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ لیکن میں سمجھتی ہوں کہ حکمران طبقے کی طرف سے امریکہ کو جنرل باجوہ جیسا ردعمل دینا چاہیے تھا ۔
جمعرات کے روز سینٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جنرل ضیاء کی جہاد پالیسی کا آج 35 برسوں سے ہم خمیازہ بھگت رہے ہیں ہم ایسا ملک یا فوج نہیں رکھتے جو کرایہ پر حاصل کی جاسکے۔
ہم نے نیٹو الائنس کا حصہ نہ ہونے کے باوجود ایک لمبے عرصے تک امریکن مفادات کے تحفظ کیلئے کام کیا۔ ہمیں اگر اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے تو امریکہ کو بھی اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا امریکہ نے 14 سالوں میں ماسوائے بزنس ڈیل کے افغانستان میں کیا کیا ہے۔