|

وقتِ اشاعت :   August 27 – 2017

صدر ٹرمپ نے براہ راست پاکستان کو نشانہ بنایا اور اپنا الزام دہرایا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ہیں جو بھارت اور افغانستان کے خلا ف استعمال ہورہی ہیں۔ 

اس سے ایک دن قبل ایک امریکی جنرل پاکستان تشریف لائے اور انہوں نے وزیرستان کا بھی دورہ کیا جہاں پر فوجی افسران نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی تفصیلات ان کو بتائیں ۔ مگر دوسری جانب امریکی سفارت خانے کی جانب سے ایک پریس ریلیز جاری ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ کی جائے یعنی دبے الفاظ میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ پاکستان کی سرزمین افغانستان اور وہاں موجود امریکی اور غیر ملکی افواج کے خلاف استعمال ہورہی ہے ۔یہ دہشت گرد وہاں حملہ کرتے ہیں اورواپس پاکستان میں اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں آکر چھپ جاتے ہیں۔ 

پاکستان ہمیشہ سے ان الزامات کی تردید کرتا آیا ہے اور قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھی اس الزام کو رد کردیا گیا ۔اوریقیناًیہ سبھی کو یاد ہوگا کہ وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی سے قبل افغانستان اور امریکی افواج کے کمانڈر کو مطلع کردیا گیا تھا کہ آپریشن کے دوران اگر افغانستان اپنی سرحد بند کردیتا ہے تو دہشت گردوں کے تمام فرار کے راستے بند ہوجائیں گے مگر افغانستان نے جان بوجھ کر اپنی سرحدیں کھلی رکھیں اور تمام دہشت گردوں کو فرار ہونے کے مکمل مواقع فراہم کیے بعد میں انہی دہشت گردوں نے افغان طالبان سے مل کر افغانستان اور امریکی افواج پر حملے تیز کر دئیے جس سے افغانستان اور امریکی افواج کو زیادہ نقصانات اٹھانے پڑے ۔ اگر افغانستان اور امریکی افواج پاکستان کے ساتھ تعاون کرتے اور پاکستان سے فرار ہونے والے دہشت گردوں کو پناہ نہ دیتے تو آج افغانستان اور امریکا کو یہ شکایات نہیں ہوتیں۔ 

دوسری جانب قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں صدر ٹرمپ کے ان تمام الزامات کو نفرت کے ساتھ رد کردیا گیا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے اڈے یا ٹھکانے موجود ہیں اور نہ ہی پاکستان کی سرزمین کسی تیسرے ملک کے خلاف استعمال ہورہی ہے ۔

چونکہ امریکا افغانستان میں فتوحات اور کامیابی حاصل نہ کر سکا اس لیے وہ پاکستان پرالزامات لگا رہا ہے ۔ پاکستان ان تمام الزامات کو رد کرتا آیا ہے اب امریکہ افغان جنگ میں بھارت کو شامل کررہا ہے صدر ٹرمپ نے بھارت کو افغانستان آنے کی دعوت دی ہے جس کا مقصد صاف اور واضح ہے کہ اب امریکا بھارت کو افغانستان کے جنگ میں استعمال کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ 

بھارت نے اب تک اس قسم کا کوئی اعلان نہیں کیا کہ وہ افغانستان جا کر امریکا کی مدد کرے گا اور اس کے بدلے امریکا بھارت کی امداد کشمیر کے مسئلے پر کرے گا ۔تاریخ سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ افغان خصوصاً طالبان امریکیوں کو کسی حد تک برداشت کرسکتے ہیں لیکن بھارتی افواج کو قطعاً برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ اس سے قبل بھارتیوں پر افغانستان میں حملے ہوتے رہے ہیں ان کے کارکن اور انجینئرز اغواء ہوتے رہے ہیں ۔

طالبان نے خصوصی طورپر بھارتی اہداف کو افغانستان کے طول و عرض میں نشانہ بنایا تھا اور یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ افغان کسی قیمت پر بھی بھارتی افواج کو اپنی سرزمین پر برداشت نہیں کر یں گے۔

قومی سلامتی کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ موجودہ صورت حال کا سامنا کرنے کے لئے وزارت خارجہ ایک زبردست مہم چلائے گی جس میں پاکستان کے موقف کو واضح کیاجائے گا ۔

اس سلسلے میں وفود روس‘ چین کے علاوہ دوسرے دوست ممالک کا دورہ کریں گے۔ وزیراعظم پہلے ہی ایک وفد کی سربراہی میں سعودی عرب کا دورہ کرچکے ہیں امید ہے ایک وفد ایران اور دیگر عرب ممالک کا دورہ کرے گا او رپاکستان کے موقف کو زیادہ بہتر انداز سے پیش کرے گا۔