آج کچھی کینال کی تعمیر کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے اور وزیراعظم شائد خاقان عباسی اس پہلے مرحلے کا باقاعدہ افتتاح کریں گے۔ پہلے مرحلے کی تعمیرات سے اندازاً 74ہزار ایکڑ زمین آباد ہوگی یہ علاقہ بگٹی سرزمین کا حصہ ہے یہاں کافی بڑی زمین آباد ہوگی جس سے لاکھوں لوگوں خصوصاً بگٹی قبائل کو روزگار حاصل ملے گا۔
اس سے ملکی زرعی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ یہ ایک بہت بڑا معاشی قدم ہے جس سے زراعت کے ساتھ ساتھ اضافی پانی کی موجودگی میں گلہ بانی کو بھی زبردست فروغ ملے گا۔
اس منصوبے کا منفی پہلو یہ ہے کہ یہ منصوبہ ہمیشہ کی طرح دہائیوں میں مکمل ہوگیا اس پر اخراجات کا تخمینہ پچاس ارب روپے لگایا گیا تھا جس سے منصوبے کے تینوں مراحل کومکمل ہونا تھا چونکہ وفاقی حکومت اور اس کے حکمرانوں کو کبھی بھی بلوچستان کے ترقیاتی منصوبوں میں سوائے کرپشن کے کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں رہی ہے اس لیے ان منصوبوں میں دہائیوں کی دیر کی جاتی ہے ۔
اس طرح منصوبہ کی لاگت میں کئی گناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ پہلے مرحلے کی تعمیرات پر اسی ارب روپے خرچ ہوگئے جبکہ منصوبے کی مجموعی لاگت صرف پچاس ارب تھی ۔ اگر مقررہ وقت پر فنڈز فراہم ہوتے تو اسی ارب سے لے کر 100ارب روپے تک کی بچت ہوتی ۔ چونکہ وفاقی حکومت میں بلوچ کی نمائندگی صفر ہے جو وفاق کے اندر بلوچوں کے مفادات کی نگرانی کریں لہذابلوچستان کے عوام اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں ۔
گوادر دوسرا بڑا منصوبہ ہے اس پر تعمیرات 2002میں شروع ہوئیں اور پندرہ سال گزرنے کے بعد بھی اس عظیم الشان بندر گاہ کے صرف تین برتھ تعمیر ہوئے ہیں ۔ مزید پانچ برتھوں کی تعمیر کی منظوری دی گئی مگر اس پر کام گزشتہ دو سالوں سے شروع نہ ہوسکا، نہ ہی اس کے شروع ہونے کے آثار نظر آرہے ہیں ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کچھی کینال کے پہلے مرحلے کی تعمیرات کے افتتاح کے موقع پر وزیراعظم کیا اعلانات کرتے ہیں ۔ کیا وہ دوسرے اور تیسرے مرحلے کی تعمیرات کا بھی اعلان کریں گے یا نہیں، یا پھرمنصوبہ یہیں ختم کردیں گے جس سے کچھی کی 75لاکھ ایکڑ اراضی یوں ہی غیر آباد اور بنجر رہے گی۔ اصل منصوبے کے تحت کچھی کینال کے ذریعے سات لاکھ ایکڑ زمین بگٹی قبائلی علاقے اور کچھی کے میدانی علاقوں میں کو آباد کرناہے ۔
دوسرے اور تیسرے مرحلے کی تعمیرات ابھی باقی ہیں امید ہے وفاقی حکومت بلوچستان کے اس میگا پروجیکٹ کے لیے فنڈز فراہم کرے گی تاکہ بلوچستان زرعی اور غذائی اجناس کی پیداوار میں خود کفیل ہو۔ اگر مزید اس قسم کے منصوبے بنائے اور مکمل کیے گئے تو بلوچستان پورے خطے کو غذائی اور زرعی اجناس اور پھل فراہم کرے گا ۔ اس کے لئے مقامی دریاؤں پر ڈیم اور پانی کے ذخائر تعمیر کرنے پڑیں گے۔
یہ کام صوبائی حکومت کا ہے کہ وہ گٹر منصوبوں کے بجائے بڑے بڑے معاشی منصوبے بنائے اور بلوچستان کے ہر خطے میں ڈیم اور پانی کے ذخائر تعمیر کرے تاکہ خشک سالی اور قحط کا مقابلہ کیا جا سکے اور لوگوں کو قحط کے دوران بھی سہولیات فراہم کی جا سکیں ۔ بلوچستان بھر میں جتنے بھی بڑے بڑے دریا بہتے ہیں ان سب پر مرحلہ وار ڈیم اور پانی کے بڑے بڑے ذخائر تعمیر کیے جائیں ۔
گوادر اور دوسرے بندر گاہوں کی ترقی اور کچھی کینال بلوچ عوام کی قسمت بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو موجودہ صدی کے حقیقی معنوں میں میگا جیکٹس ہیں لہذا ان کو جلد سے جلد مکمل کیا جا ئے ۔ ہمارا صوبائی حکومت کو یہ مشورہ ہے کہ وہ بین الاقوامی طورپر ان منصوبوں کے لئے سرمایہ تلاش کرے، عالمی بنک اور اسکے اداروں سے بات چیت کرے اور ان منصوبوں کے لیے سرمایہ حاصل کرے۔