|

وقتِ اشاعت :   September 7 – 2017

ہر سال چھ ستمبر کو قوم یوم دفاع پاکستان مناتی ہے اور اس بات کی تجدید کرتی ہے کہ وطن کے دفاع کی خاطر ہر قربانی دینے کو تیار ہے ۔

اس دن 1965ء میں بھارت نے بغیر کسی اعلان کے پاکستان پر اچانک حملہ کردیا ، یہ حملہ لاہور پر کیا گیا جو ناکام ہوگیا اور بھارتی حملہ آور فوج اپنے فوجی اہداف حاصل نہیں کر سکی۔

حملہ کے دوران بھارتی مسلح افواج کے کمانڈر نے تکبر سے یہ اعلان کیا تھا کہ اسی دن شام کو وہ لاہور کے جم خانہ میں شراب پئیں گے لیکن حملہ ناکام ہوگیا اور بھارتی حملہ آور افواج کو لاہور اور دوسرے جنگی محاذوں پر پسپا ہونا پڑا ۔

1965ء میں پاکستان متحد تھابھارت نے مغربی پاکستان خصوصاً کشمیر ‘ پنجاب اور سندھ پر حملے کیے تھے پوری مسلح افواج کو ان تین محاذوں پر استعمال کیا گیا ۔ مشرقی پاکستان یا موجودہ بنگلہ دیش بھارتی حملے سے محفوظ رہا تھا۔

دوسری جانب ایران اور افغانستان دونوں ممالک نے پاکستان کا ساتھ دیا اور شہنشاہ ایران اور امیر کابل نے پاکستان کی سرحدوں پر امن بر قرار رکھا اور کوئی نا خوشگوار واقعہ جنگ کے دوران پیش نہیں آیا ۔ دونوں ممالک نے پاکستان کے ساتھ دوستی کا حق ادا کیا۔

پاکستان‘امریکا کی سرپرستی میں دو فوجی معاہدوں کا رکن تھا دونوں فوجی معاہدوں کے سربراہوں نے جنگ سے لا تعلقی کا اظہار کیا اور پاکستان کی کوئی مدد نہیں کی حالانکہ پاکستان دونوں دفاعی معاہدوں کا مستقل رکن تھا ۔

ان دونوں دفاعی معاہدوں کے کمانڈروں کا یہ موقف تھا کہ معاہدے میں بھارتی حملے کا تذکرہ نہیں تھا یہ دفاعی معاہدہ روس اور کیمونسٹوں کے خلاف تھا ، اگر روس حملہ آور ہوتاتو ہم پاکستان کی مدد کرتے۔

پاکستان کا روس اور چین سے کوئی تنازعہ نہیں تھا پاکستان صرف اور صرف بھارت کے خلاف دفاع کی خاطر ان دونوں دفاعی معاہدوں کا رکن بنا تھا جس کی سربراہی امریکا اور برطانیہ کررہے تھے ۔

چنانچہ 1965ء کی جنگ بھارت کے خلاف پاکستان نے تنہا لڑی۔ دوست ممالک اور معاہدوں کے رکن ممالک پاکستان کی مدد کو نہیں آئے پاکستان نے اکیلا بھارت کا مقابلہ کیااور کامیابی سے اپنا دفاع کیا ۔

اس کامیابی کی سب سے بڑی وجہ قوم کی اتحادتھی جو مسلح افواج کے پشت پر تھی ا ور ہر قربانی دینے کو تیار تھی اس لیے برّی ،بحری اورفضائی مسلح افواج بے جگری سے لڑیں تاوقتیکہ روس کے رہنماؤں نے اس میں مداخلت کی۔

تاشقند میں دونوں ممالک کے سربراہوں کے درمیان بات چیت ہوئی جس کے بعد تاشقند کا اعلامیہ جاری ہوایوں دونوں ممالک کے درمیان نہ صرف جنگ بندی ہوئی بلکہ دونوں ممالک کے افواج دوبارہ امن کے زمانے کی پوزیشنز پر واپس چلی گئیں ۔

پورے خطے میں امن 1971ء تک برقرار رہی لیکن بھارت نے اپنی شکست کا بدلہ بنگلہ دیش بنا کر لیا ۔ مشرقی پاکستان پر فوجی یلغار سے قبضہ کیا اور وہاں موجود فوجیوں کو گرفتارکرلیا ۔

موجودہ حالات میں پاکستان پھر مشکلات کا شکار نظر آتا ہے ، امریکا نے افغان جنگ کو خطے کی جنگ بنا دی اور بھارت کو بھی علاقائی جنگ میں ملوث کیا ۔ اب امریکا اور بھارت کا اتحاد افغانستان کی دفاع کے بہانے سرگرم ہوگیا ہے۔

دوسرے الفاظ میں پاکستان کو دو سرحدی محاذوں پر دشمنوں کا سامنا ہوگا، ایک افغان سرحد اور دوسری روایتی دشمن بھارتی سرحد جو گزشتہ ستر سالوں سے حالت جنگ میں ہے ۔

یعنی ہم کو دو محاذوں پر دشمن کا سامنا ہے اور ان دونوں محاذوں پر بھارت اور افغانستان کو امریکا کی پشت پناہی حاصل ہے ۔

یہ ایک انتہائی خطر ناک صورت حال ہے جس کا مقابلہ زیادہ تدبر سے کرنا پڑے گا ۔ دوست ممالک سے مدد لینی پڑے گی اور کشیدہ صورت حال کا کوئی سیاسی اور سفارتی حل تلاش کرنا ہوگا اور ہر صورت جنگ سے بچنا ہوگا جس کے لئے اقوام متحدہ کی طرف رجوع کرنا بہترین تدبیر ہوگی ۔

اس سب کچھ کے بعد پاکستان کو چائیے کہ وہ کشمیر کا تنازعہ دوبارہ سلامتی کونسل میں لے جائے تاکہ سلامتی کونسل اس مسئلہ کا کوئی حل نکالے اور پورا خطہ جنگ سے محفوظ رہے۔

جہاں تک افغانستان کی بات ہے اس کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ جاری رکھا جائے اور دونوں ممالک مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑیں ۔

جنگجوؤں کے افغانستان میں تمام ٹھکانے تباہ کیے جائیں کیونکہ پاکستان میں فوجی کارروائی سے دہشت گردوں کو ملک بدر کیا جاچکا ہے اور وہ فرار ہو کر افغانستان چلے گئے ہیں ، اب وہاں ان کے خلاف کارروائی ناگزیر ہے جو ایک حقیقت ہے اس سے نظریں چرانے سے مسائل حل نہیں ہونگے۔