وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے سول سیکرٹریٹ اور دوسرے سرکاری دفاتر میں بد انتظامی کا نوٹس لیتے ہوئے چیف سیکرٹری کو ہدایات جاری کیں کہ وہ ان تمام افسران اور سرکاری اہلکار ان کے خلاف کارروائی کرے جو ڈیوٹی پرموجود نہیں اور عید کی چھٹیاں ختم ہونے کے بعد بھی ڈیوٹی سے غیر حاضر ہیں ۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ بلوچستان کی انتظامیہ میں عید کی چھٹیاں ایک ماہ تک محیط ہوتی ہیں ۔
ستر سال گزرنے کے بعد بھی سرکاری ملازمین چھٹیاں اپنے طورپر مناتے ہیں اور سرکاری احکامات کو خاطر میں نہیں لاتے ۔ یہ بات چپڑاسی سے لے کر محکمہ کے سربراہ تک درست ہے کہ وہ سرکاری اوقات کار کو کبھی خاطر میں نہیں لاتے ۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ چپڑاسی سے لے کر سیکرٹری تک کے افسران 10بجے کے بعد ہی تشریف لاتے ہیں اور دن کو ایک بجے نماز ظہر کے بہانے دفاتر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور واپس نہیں آتے۔
ان تین گھنٹوں کو زیادہ تر وہ گپ شپ اور چائے پینے میں گزارتے ہیں ۔ سرکاری کام پر توجہ صرف چند ہی لمحات تک محدود رہتا ہے ۔ بلوچستان سیکرٹریٹ پر قدیمی کلچر کی حکمرانی ہے، ابھی تک شہری زندگی اور اس کی گہما گہمی نے ہمارے سرکاری ملازمین پر کوئی اثرنہیں ڈالا اور نہ ہی ان کی معمولاتِ کار میں کوئی تبدیلی آسکی ۔
سول سیکرٹریٹ میں کلرک اور چپڑاسی کام کرتے نظر نہیں آتے ، اتنی بڑی تعداد میں چپڑاسیوں کی کیا ضرورت ہے البتہ ان کو انسانی ہمدردی کے تحت روزگار فراہم کرنا تھا تو یہ ایک الگ بات ہے ۔ ویسے بھی وزراء کے انتخابی حلقوں میں سب سے زیادہ طلب چپڑاسی کے پوسٹ کی ہوتی ہے ۔
چند شہری علاقوں کے لوگ افسر بننے کے خواہشمند ہوتے ہیں ۔ ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ تربت کے ایک نجی تعلیمی ادارے کے 12طلباء امسال مقابلہ کے امتحانات میں پاس ہوئے اور اس کی سزا ہمارے ایک محترم سیاسی رہنما نے اس نجی ادارے کو بند کرکے دیا اور کہا کہ یہ ادارہ اس کی خاندانی جائیداد پر قائم کیا گیا ہے ۔
کبھی یہ رہنماء ایک بڑے قوم پرست ‘ سوشلسٹ اور ترقی پسند ہوا کرتے تھے بلکہ آج کل بھی دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ بلوچ قوم پرستی کے نام نہاد علمبردار ہیں اس کے باوجود انہوں نے یہ معروف نجی تعلیمی ادارہ بند کردیا جس سے سینکڑوں طلباء سڑکوں پر آگئے ہیں ۔بہر حال یہ رحجان حوصلہ افزا ہے کہ نوجوان مقابلے کے امتحانات میں شریک ہوتے ہیں اور کامیابیاں حاصل کرتے ہیں ۔دوسری طرف ملازمتیں رشتہ داروں ‘ سیاسی کارکنوں میں تقسیم کرنے کا رحجان جاری ہے ۔
گزشتہ دنوں اسمبلی کے فلور پر یہ باز گشت سنائی دی کہ سینکڑوں اسامیوں پر لوگ لاٹری کے ذریعے بھرتی کیے گئے ۔ یہ راز افشا ہونے کے بعد حکومتی حلقوں کو سانپ سونگھ گیا اور اس کی تفصیلات سے عوام کو محروم کرد یا گیا ۔ ہمار اابتداء سے یہ موقف رہا ہے کہ اسمبلی کے اراکین صرف اور صرف قانون سازی کریں، وہ معاشی منیجر ‘ انتظامیہ کے سربراہ کا کردار ادا کرنے کی کوشش نہ کریں، سول سروس کے معاملات میں قطعاً مداخلت نہ کریں۔
افسران ہی قانونی طورپر سرکاری عمل کے ذمہ دار ہیں ، سزا اور جزا انہی کو ملنی چائیے ۔وزراء اپنی تمام مصروفیات صرف اور صرف کابینہ کے اجلاس میں پیش کریں یا اسمبلی کے فلور پر اپنی پالیسی کی وضاحت کریں ، انتظامی اور معاشی معاملات میں مداخلت نہ کریں ۔ افسران اپنے ماتحت عملہ کے کام کے ذمہ دار ہیں ’ افسران سے پوچھا جائے کہ ان کی کارکردگی معیار کے مطابق ہے یا نہیں۔ تاہم بلوچستان کی حکومت کو مہینہ بھر کی عید کی چھٹیاں ختم کرنا ہوں گی ۔
عید کی چھٹیوں کے خاتمہ کے بعد اگر سرکاری ملازمین ڈیوٹی پر حاضر نہیں ہوتے تو ان کے خلاف انضباتی کارروائی ہونی چائیے ۔ سول سیکرٹریٹ میں ڈسپلن قائم کیاجائے ،دفاتر میں اوقات کار صبح دس بجے سے شام پانچ بجے تک ہونا چاہئے۔
درمیان میں ظہر کی نماز اور لنچ کے لئے ایک گھنٹہ کا وقفہ ہونا چائیے ۔ اوقات کار میں تبدیلی سے سرکاری ملازمین کے طرز عمل میں بھی تبدیلی آئے گی۔ ان کو معلوم ہونا چائیے کہ وہ صرف اور صرف حکومت بلوچستان کے ملازم ہیں ۔