روزنامہ آزادی کے ایک اداریہ کے بعد وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے ایک اجلاس کی صدارت کی جس میں متعلقہ افسران کو یہ احکامات دی گئیں کہ سریاب کے مکینوں کو جدید ترین شہری سہولیات فراہم کی جائیں، اس کے لئے منصوبہ بندی کی جائے اور منصوبہ بندی جلد سے جلد ہو تاکہ بغیر کسی تاخیر کے سریاب کو وسیع تر کوئٹہ کا حصہ بنایاجائے ۔
چونکہ سریاب کے باسیوں کو اپنے ہی صوبے میں دوسرے اور تیسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے اس لیے ان کو شہری سہولیات کی فراہمی میں بہانہ بازی سے کام لیا جاتا رہا ہے بلکہ سریاب کو کوئٹہ شہر کا حصہ تسلیم ہی نہیں کیا جاتا حالانکہ شہرکی تقریباً نصف آبادی اس وسیع علاقے پر رہتی ہے جو 12میل طویل ہے یہ ہزار گنجی سے شروع ہو کر ایوان قلات پر ختم ہوتاہے ۔
ان علاقوں میں صوبے کے لگ بھگ چھ سابق وزرائے اعلیٰ اور گورنرر ہتے ہیں بلکہ موجودہ وزیراعلیٰ کا جھالا وان ہاؤس بھی سریاب روڈ پر واقع ہے اس کے باوجود اس کو پسماندہ رکھا جارہا ہے ۔ یہاں سب سے بڑامسئلہ صحت و صفائی کا ہے شاید ہی کسی خاکروب کو کبھی سریاب کے علاقوں میں کام کرتے دیکھا گیا ہے اور نہ ہی یہاں میونسپل کی گاڑیاں کچرا اٹھاتی نظر آتی ہیں ، اس علاقے کے تمام گٹر ابل رہے ہوتے ہیں ۔
اوپن ڈرین لائن میں صفائی نہ ہونے کی وجہ سے گندا پانی اور سیوریج کا پانی سڑکوں پر سال بھر بہتا رہتا ہے اور سڑکوں کو تباہ کرتا ہے ۔
اس کا کوئی نوٹس نہیں لیتا خصوصاً چھٹیوں اور عید کے موقع پر گٹر ضرور ابلتے ہیں اور اوپن ڈرین لائن، سیوریج لائن کی نہر کا منظر پیش کرتا ہے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے ابلتے ہوئے گٹر اور اوپن ڈرین لائن کا مسئلہ حل کریں اور سریاب کے مکینوں کو ایک جدید اور مناسب سیوریج نظام دیں۔
یہ ایک بڑی ٹرنک لائن ہو جو ایک سرے سے دوسرے سرے تک کی آبادی کی سیوریج کی ضروریات کو پورا کرے۔
ہر مقامی آبادی کو اس مین ٹرنک لائن کے ساتھ منسلک کیاجائے تاکہ گٹر ابلنے کی نوبت اگلے 100سالوں تک نہ آئے ۔
اس گراؤنڈ ٹرنک لائن کے گندے پانی کو دوبارہ استعمال کے قابل بنانے کے لئے فلٹرکیاجائے تاکہ یہ پانی کھیتی باڑی ‘ پھل کے باغات میں استعمال کیا جاسکے ۔
اوراس سے پوری سریاب روڈ اور شہر کے ملحقہ علاقوں میں شجر کاری کرکے کوئٹہ کے ماحول کو بہتر بنایا جائے تاکہ شہر کو دوبارہ صحت افزا مقام کااعزاز ملے ۔ دوسری جانب سٹی نالہ کو بھی انہی مقاصد کیلئے استعمال میں لایاجائے تاکہ کوئٹہ میں قلت آب کا بھر پور مقابلہ کیا جا سکے ۔
اس کو صوبے کا میگا پروجیکٹ بنایاجائے اور مناسب رقم دوسرے فضول ایم پی اے اسکیموں سے نکال کر اس بڑے پروجیکٹ میں استعمال کیاجائے ۔
اس کا مقصد یہ ہو کہ صاف اور اچھی کوالٹی کی سبزیاں اور پھل عوام الناس کو فراہم کی جائیں ۔ اگر شہریوں کو صاف پانی اور صاف پانی سے پیدا شدہ سبزیاں ملیں تو یہ حکومت کے لئے بھی اچھی بات ہے کیونکہ بیماریوں اور علاج معالجے پر اربوں روپے خرچ ہورہے ہیں ۔
اگر بیماریوں کی پیش بندی کی جائے اور ماحول کو صاف ستھرا رکھا جائے تو حکومت کو علاج معالجے پر اربوں روپے خرچ نہیں کرنے پڑیں گے اور پھر قلت آب کا مسئلہ بھی کسی حد تک حل ہوجا ئے گا ۔
لیکن ہمارے یہاں میونسپل رہنماؤں نے گندے کوئٹہ شہر کو خوبصورت بنانے کا ٹھیکہ لیا ہواہے ۔
ابلتے گٹروں پر رنگین لائٹس لگا رہے ہیں اور دوسری طرف یہ چیختے ہیں کہ ہمارے پاس اختیارات نہیں ہیں ،ہمارے پاس وسائل نہیں اس لیے انہوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے ،ان کو وزیراعلیٰ کے برابر اختیارات اور پورے صوبہ بلوچستان کا بجٹ چائیے تاکہ شہر کی گنجان آبادی میں پارک اور درخت کے بجائے تجارتی پلازے کھڑی کریں اور سابق مئیر کی پالیسی پر عمل کریں ۔
ان کو یہ معلوم ہونا چائیے کہ سابق مئیر عدالتوں میں مقدمات بھگت رہے ہیں اور شاید زندگی بھر یہ مقدمات بھگتے رہیں گے۔
لہذا کوئٹہ شہر کے اندر اور گنجان آبادی والے علاقوں میں حکومت یا میٹروپولٹین کارپوریشن منافع بخش کاروبار اور تجارتی تعمیرات نہ کرے۔ یہ کام نجی سرمایہ کاروں پر چھوڑا دینا چائیے ۔