|

وقتِ اشاعت :   September 12 – 2017

گزشتہ روز کچلاک کے علاقے میں چار ہزارہ قبائل کے لوگوں کو گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا اورچند ایک اس قاتلانہ حملہ میں زخمی ہوئے ، دو خواتین پر حملہ نہیں کیا گیا ۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق آٹھ ہزار ہ قبائلی ایک وین میں سوار ہو کر چمن سے کوئٹہ آرہے تھے۔

ایک پیٹرول پمپ پر تیل بھروانے کے لیے گاڑی رکی تو مسلح افراد موٹر سائیکلوں پر وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے ان کو گاڑی سے اتارا اور ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جس میں تین افراد موقع پر ہی ہلاک ہوگئے ۔

ایک اور شخص زخموں کی تاب نہ لا کر اسپتال میں دم توڑ گیا ۔ دو زخمی افراد کا اسپتال میں علاج ہورہا ہے، دونوں خواتین کو ان کے گھروں کو روانہ کیا گیا ۔ ابھی واقعہ کی مزید تفصیلات نہیں ملیں کہ یہ مقتول کون تھے کہاں سے آئے تھے۔ 

بعض سرکاری ذرائع نے یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ افغانستان سے آئے تھے اور مقامی باشندے نہیں تھے لیکن سرکاری ذرائع نے اس بات کی تصدیق نہیں کی ۔اگر وہ غیر قانونی تارکین وطن تھے اور حکومتی ذرائع کے پاس اس قسم کی اطلاعات تھیں تو درجن بھر چیک پوسٹوں پر ان کو کیوں نہیں روکا گیا ۔

ان کو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا اگر ان کے پاس قانونی سفری دستاویزات نہیں تھیں وگرنہ یہ روایتی ٹارگٹ کلنگ کا معاملہ ہے جس میں تاک تاک کر ہزار ہ قبائل کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور پھراس کو فرقہ واریت کا رنگ دیاجاتا ہے ۔ لیکن یہ تمام لوگ ریاست پاکستان کے شہری ہیں ان کے حقوق کسی دوسرے سے کم نہیں ہیں لہذا ان کے جان و مال کا تحفظ ریاست پاکستان اور اس کے اداروں کی ذمہ داری ہے ۔ 

جتنے لوگ اس طرح کے حملوں میں ہلاک ہوئے ہیں ان کی ذمہ دار ریاست پاکستان ہے ۔ اس لیے ان کے تمام قاتلوں کو ایک ایک کرکے تلاش کیاجائے اور ان کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیاجائے تاکہ کوئی بھی قاتل آئندہ ایسی جرات نہ کر سکے ۔

شیعہ حضرات پورے ملک میں رہتے ہیں اور مسلک کی بنیاد پر ان کو ملک کے دوسرے حصوں میں اس طرح بے رحمی سے قتل نہیں کیا جاتا سوائے پاراچنار کے ۔ ہزارہ برادری کے لوگ گزشتہ دو صدیوں سے بلوچستان میں آباد ہیں ان دو صدیوں میں بلوچ آبادی کو ان کے خلاف کوئی شکایات نہیں رہیں بلکہ وہ اس ملک کے برابر کے شہری تھے اور مقامی آبادی میں شیر و شکر تھے ۔

وہ ایک پر امن سماج کا حصہ تھے لیکن انقلاب ایران کے بعد سے ریاست اورریاستی اداروں کا رویہ کچھ تبدیل نظر آیا۔ کبھی کسی بھی حکومتی رہنماء نے اس بات کی اعلانیہ تشریح اور وضاحت نہیں کی کہ مسلکی بنیادوں پر اب ان کو کیوں قتل کیاجارہا ہے اور شاید اس بات کی وضاحت مستقبل قریب میں بھی نہیں کیاجائے ۔ 

بہر حال ریاست پاکستان ان کو اپنا شہری سمجھتا ہے اور اعلانیہ طورپر اس بات کی پابند ہے کہ ہزارہ قبائل کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہیں ہونی چائیے اور نہ ہی ان کے ساتھ کسی قسم کا امتیازی سلوک روا رکھاجائے ۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ حکومت اس قتل عام کی بھرپور اندازمیں تحقیقات کرے گی اور ذمہ دار افراد کو نہ صرف گرفتار کرے گی بلکہ ان کو سخت ترین سزا بھی دے گی ۔

لوگوں کا حکومت وقت پر مکمل اعتماد ہے کہ وہ انصاف ضرور کرے گی اورمناسب اقدامات اٹھائے گی تاکہ اس قسم کے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت اس میں پہل کرے ۔ 

وزیراعلیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ اس کی بھرپور انداز میں تحقیقات ہوں گی اور قاتلوں کو جلد سے جلد گرفتار کیاجائے گا اور ان کو قرار واقعی سزا ملے گی ، ہم امید رکھتے ہیں کہ اس بار ایسا ہی ہوگا اور معاملے کو سرد خانے کی نذر نہیں ہونے دیا جائے گا۔