بلوچستان کے عوام کا یہ جائز اور قانونی مطالبہ ہے کہ اس کو نہری پانی میں اس کا جائز حصہ دیں ۔ 1991ء میں صوبوں کے درمیان نہری پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہوا تھا جس میں تمام باتوں کے علاوہ بلوچستان کو دس ہزار کیوسک اضافی پانی دینے کا اعلان کیا گیا تھا اس معاہدے پر نواب ذوالفقار علی مگسی کے دستخط ہیں جو اس وقت بلوچستان کی نمائندگی کررہے تھے اس معاہدے کے روح رواں میاں شہباز شریف تھے اور انہوں نے معاہدہ کی تکمیل میں اہم ترین کردار ادا کیا تھا۔
اس وقت سے لے کر آج تک بلوچستان کواس کے حصے کا پانی نہیں ملا۔ بلوچستان کو اضافی پانی دینے کے لئے بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں تھا اور اس طرح سے پچیس سالوں سے بلوچستان کو اضافی نہری پانی سے محروم رکھا گیا،اس اضافی پانی کو سندھ اور پنجاب آج تک استعمال کرر ہے ہیں۔
کچھی کینال کا منصوبہ مرحوم غوث بخش بزنجو سابق گورنر بلوچستان کے ذہن کی اختراع تھی اور اس وقت کے چیف انجینئر آبپاشی نے یہ منصوبہ بنایا اور بزنجو صاحب نے وفاقی حکومت کو پیش کیا لیکن اس پر عمل درآمد 2002میں جنرل پرویزمشرف نے کیا جس کی رو سے کچھی کینال کی تعمیر سے سات لاکھ 13ہزار ایکڑ زمین آباد ہونی ہے اس میں بگٹی سرزمین کا حصہ 72ہزار ایکڑ نہیں بلکہ 90ہزار ایکڑ تھی ۔
ایک سال قبل کرپٹ ٹھیکے دار اور افسران نے غیر مکمل ،غیر معیاری اور بوسیدہ تعمیرات کو حکومت کے حوالے کرنے کی کوشش کی جس کے دوران وسیع پیمانے پر کرپشن کے الزامات اور غیر معیاری تعمیرات کا معاملہ سامنے آیا ۔
چنانچہ تعمیرات کو زیادہ مناسب بنایا گیا تب جا کر وفاقی حکومت نے اس کے افتتاح کا فیصلہ کیا ۔ کیر تھر کینال 1935ء سے زمین سیراب کررہا ہے اور پٹ فیڈر 1960کی دہائی سے لاکھوں ایکڑ زمین آباد کررہا ہے ۔ پٹ فیڈر کے نہری پانی کا کوٹہ ہزار کیوسک اور کیر تھر کینال کا 2400کیوسک تھا لیکن گزشتہ ایک سال کے دوران ان دونوں نہروں کو نصف سے بھی کم پانی مل رہا ہے ۔
اگر پانی کی قلت ہے تو یہ قلت سندھ اور پنجاب کے لئے بھی ہونی چائیے صرف بلوچستان کے لئے کیوں ؟ پانی کی یہ کمی پنجاب اور سندھ میں کیوں محسوس نہیں کی گئی، آئے دن مظاہرے بلوچستان میں ہوتے ہیں بلوچستان چونکہ نہری نظام کے آخری سرے پر واقع ہے اس لیے پنجاب اور سندھ سارا پانی استعمال کرتے ہیں تو بلوچستان کے لئے کچھ نہیں بچتا۔
دوسری جانب اوپر ی سرے پر زمیندار سارا پانی چوری کر لیتے ہیں ، آخری سرے پر رہنے والوں کو پانی کا شتکاری چھوڑیں، پینے کے لئے بھی پانی نہیں ملتا یہ صرف اچھی نظام حکمرانی نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ دہائیوں سے حکمران جو کوئٹہ میں رہتے ہیں انہوں نے نہری نظام کو نظر انداز کیا ہوا ہے ۔
ان حکمرانوں کو اس نہری نظام کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ۔ ایم پی اے حضرات آئے دن پی ایس ڈی پی کو لے بیٹھتے ہیں دنیا کے معاملات سے ان کاکوئی تعلق ہی نہیں رہا ۔ نہروں کی صفائی نہیں ہورہی بلکہ نہری پانی طاقتور زمین دار چوری کررہے ہیں ،ایک آدھ دن ان کے خلاف کارروائی ہوتی ہے اس کے بعد زیادہ طاقتور پمپ لگا کر زیادہ پانی چوری کرتے ہیں۔
بہرحال کچھی کینال کی اہمیت بلوچستان کے لیے بہت زیادہ ہے جس سے سات لاکھ تین ہزار ایکڑ زمین آباد ہونی ہے اگر اس کو مکمل کیا جائے لیکن اب اس کو بگٹی سرزمین پر ختم کیاجارہا ہے ۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں کچھی کینال کے فیز دو اور تین سے متعلق ایک لفظ بھی نہیں کہا نہ ہی انہوں نے سات لاکھ3ہزار ایکڑ زمین کو سیراب کرنے کی بات کی ۔
ان کی تقریر بگٹی سرزمین تک محدود کردی گئی ، اس میں باقی ماندہ تعمیرات نہیں ہوں گی کچھی کی لاکھوں ایکڑ زمین یوں ہی غیر آباد اور بنجر رہے گی ۔ حکومت پاکستان کے پاس فضول کاموں کے لیے دولت بہت ہے لیکن بلوچستان کے اس اہم منصوبے کی تکمیل کیلئے کوئی وسائل نہیں ۔
حکمرانوں کا کوئی ارادہ نہیں کہ بنجر زمین کوآباد کریں، بلوچستان کو غذائی پیداوار کے معاملے میں خود کفیل بنائیں اور مجموعی طورپر ملکی پیداوار میں اضافہ کریں، قیمتوں میں اضافے کے رحجان کو روکیں ۔
افراط زر کا خاتمہ صرف اور صرف پیداوار میں اضافہ سے ہوسکتا ہے اس لیے حکومت کچھی کینال کے دوسرے اور تیسرے مراحل کی تعمیرات کا فوری آغاز کر ے۔