سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے نواز شریف اور اس کے بچوں سمیت تمام کی نظر ثانی کی درخواستیں مسترد کردیں۔اس طرح وہ خود اور ان کے اہل خانہ نا اہل ہوگئے ۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان پر جرم ثابت ہوگیا ہے ، وہ سب کے سب مجرم ہیں ، ان کی حمایت کرنا مجرم کی حمایت کرنا ہے ۔
اب احتساب عدالت نے جرم ثابت ہونے کے بعد صرف سزا سنانی ہے۔ نواز شریف ‘ ان کی اولاد اور داماد کے علاوہ اسحاق ڈارکو احتساب عدالت میں پیش ہونا ہے اور اپنی سزا کا انتظار کرنا ہے ۔ اس میں اب دو رائے کی گنجائش نہیں کہ مسلم لیگ اپنا نیا رہنماء اور صدر تلاش کرے ۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے نواز شریف اور اس کے خاندان کو سیاست سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بے دخل کردیا ۔
وہ نا معلوم شخص کی حیثیت سے سیاست میں داخل ہوئے اور بڑی طمطراق سے سیاست سے بے دخل کردئیے گئے۔ اب وفاق ‘ پنجاب اور بلوچستان کی حکومتوں کو یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑے گی کہ نواز شریف سیاست سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بے دخل ہوگئے ہیں وہ اور اس کے خاندان کا کوئی رکن سیاست میں نہیں رہ سکتا۔ افسوس کی بات ہے کہ نواز شریف اپنے آپ کو سیاستدان کہتا تھا اور وہ اقتدار سے کرپشن کی وجہ سے محروم ہوا ،اس پر کرپشن کے الزامات ثابت ہوگئے۔
سیاستدان کرپٹ حکمران ثابت ہوا۔ اس کے مقابلے میں ہمارے سیاستدان دہائیوں صرف اور صرف سیاسی وجوہات کی بنا ء پر جیل میں رہے ، ان کو باقاعدہ کوڑوں کی سزائیں دی گئیں ،ان کو طویل مدت جیل کی سزائیں فوجی حکمرانوں نے دی تھیں ، غوث بخش بزنجو کو 14سال جیل اور بیس کوڑوں کی سزا اس وجہ سے سنائی گئی کہ انہوں نے تاریخی اور قومی صوبے بحال کرنے کا مطالبہ کیا تھا ۔
چونکہ بلوچستان میں سیاست کو عبادت کا درجہ ابھی تک حاصل ہے سوائے چند سرکاری لوگوں کے ۔ لیکن پنجاب میں حکمران ‘ وزراء اور رہنماؤں کو صرف اور صرف کرپشن اور دیگر جرائم میں ملوث ہونے پر سزائیں دی گئیں ۔ عوام کے حقوق کے دفاع میں کسی نے کوئی سزا نہیں بھگتی ۔
بلوچستان میں سینکڑوں ایسے افراد ہیں جو صرف سیاسی وجوہات کی بناء پر جیل میں رہے ان میں سرفہرست غوث بخش بزنجو ،میر گل خان نصیر ‘ پرنس کریم ‘ سردار عطاء اللہ مینگل ‘ نواب خیر بخش مری ‘ نواب اکبر بگٹی جنہوں نے شہادت کادرجہ حاصل کیا اور قومی حقوق کی راہ میں شہید ہوئے۔
ہمارے بعض قارئین کو اس سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان میں سیاست کو ابھی بھی عبادت کا درجہ حاصل ہے مشکل اوقات میں سیاست کرنا عبادت سے کم نہیں ہے ۔ نواز شریف سیاسی آدمی نہیں تھے ، ان کا کوئی سیاسی کردار نہیں تھا۔ ان کو پہلی بار 1985ء کے انتخابات میں جتایا گیا اور ہمارے بعض پنجابی دوستوں نے اعلانیہ طورپر فیس وصول کرکے ان کے لئے کام کیا اور آخری جلوس میں ان کا یہ نعرہ مشہور ہوا ۔
مارشل لاء کی بابرا شریف ‘ نواز شریف ‘ نواز شریف ‘ یہ ان کی اصلی مقبولیت تھی ویسے بھی پنجاب میں سیاسی جدوجہد کی روایت ہی نہیں تھی اس لیے نواز شریف پر صرف ایک ہی شوق دولت کمانے کا طاری ہوا ۔ ایک اتفاق فاؤنڈری نے 28بڑے مل بنا دئیے ۔ انہوں نے ہر ایک منافع بخش قومی ادارہ اپنے دوستوں کے ہاتھوں فروخت کیا اور ملک کو دیوالیہ کردیا ۔
ان کو یہ افسوس ضرور رہے گا کہ وہ پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل مل کو اپنے دوستوں خصوصاً ہندوستان کے دوستوں کو فروخت نہ کر سکا اور اس کی کمیشن ملک سے باہر وصول نہ کر سکا ۔ اس کی وجہ سندھ کے عوام اور ان کے نمائندوں کی طرف سے زبردست مزاحمت تھی۔