|

وقتِ اشاعت :   September 25 – 2017

 بغداد: عراق کی ریاست کردستان میں آزادی کے لیے ریفرنڈم کرایا جارہا ہے۔

عراق میں وزیراعظم حیدرالعبادی کی مرکزی حکومت کی مخالفت کے باوجود ریاست کردستان میں ملک سے علیحدگی کے لیے ریفرنڈم کرایا جارہا ہے۔

دوسری جانب وزیراعظم حیدرالعبادی نے کہا ہے کہ اگر ریاست کردستان کی حکومت و عوام نے علیحدگی کا فیصلہ کیا تو فوجی مداخلت بھی کی جاسکتی ہے اور ملک کی وحدت کو یقینی بنانے کے لیے تمام تر اقدامات کیے جائیں گے۔

ترکی اور ایران نے بھی عراقی کردستان کی آزادی کی مخالفت کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ اس طرح ان کے ہاں بھی جاری کردوں کی علیحدگی کی تحریکیں زور پکڑ سکتی ہیں۔ ترک پارلیمان نے عراق میں فوجی مداخلت کا بل منظور کرلیا ہے جب کہ ایران نے کردستان جانے والی پروازیں روک دی ہیں۔

مغربی ممالک نے ریفرنڈم پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے عراق میں ایک اور محاذ آرائی شروع ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے جس کے نتیجے میں داعش کے خلاف جنگ سے توجہ بھٹک سکتی ہے۔

تاہم کرد عوام کی بڑی تعداد تمام تر اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے گھروں سے نکل آئی اور ووٹ ڈال رہی ہے۔

استصواب رائے کے نتیجہ کے بارے میں پہلے سے ہی یہ بات ہے کہ نتیجہ عراق سے کردستان کی آزادی کے حق میں ہی آئے گا۔

ریاست کردستان کے صدر مسعود بارزانی نے کہا کہ آزادی ہی کردوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کا واحد راستہ ہے۔ انہوں نے عزم کیا کہ ریفرنڈم سے داعش کے خلاف جنگ متاثر نہیں ہوگی۔

ادھر عراقی حکومت نے کردستان کی ریاستی حکومت پر ریفرنڈم کو روکنے کے لیے زور دیا ہے تاہم کردستان کی خودمختار حیثیت ہونے کے باعث عراقی حکومت قانونی طریقے سے اس استصواب رائے کو نہیں روک سکتی۔

وزیراعظم حیدرالعبادی نے ریفرنڈم کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کی وجہ سے امن و سلامتی کو خطرہ لاحق ہے۔ عراقی حکومت نے کردستان سے بین الاقوامی چوکیوں کا کنٹرول بھی واپس کرنے کا مطالبہ کیا۔

واضح رہے کہ کرد قوم دنیا کے 4 ممالک میں بٹی ہوئی ہے جن میں عراق، ترکی، ایران اور شام شامل ہیں۔

1923 میں خلافت عثمایہ کے سقوط کے بعد سلطنت عثمانیہ کے کچھ اس طرح ٹکرے ہوئے کہ کرد قوم کی آبادی ان چار ممالک میں تقسیم ہوگئی۔