نواز شریف وطن واپس آگئے ہیں۔ یہ معلوم نہیں کہ آخری وقت میں انہوں نے اپنا فیصلہ کس کے کہنے پر تبدیل کیا اور لوٹ آئے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آصف زرداری سے رابطے کے بعد انہوں نے اپنا فیصلہ تبدیل کیا تاہم آصف زرداری نے خود اور مسلم لیگ کے ذرائع نے اس کی باضابطہ تصدیق نہیں کی ۔
آخری ملاقات میں وزیراعظم شائد خاقان عباسی اور وزیر خارجہ خواجہ آصف بھی صلاح مشوروں میں شریک رہے اور وہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو اپنے ساتھ وطن واپس لائے جہاں وہ احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔
زیادہ گمان ہے کہ وزیراعظم کے اسرار پر نواز شریف نے اپنا ارادہ بدل دیا اور یہ فیصلہ کیا کہ وہ فوراً وطن واپس آئیں گے اور تمام مقدمات کا عدالت میں سامنا کریں گے ۔
ان کی غیر موجودگی کی صورت میں ا ن کے مخالفین کو واک اوور ملے گا ا ور وہ تمام فیصلے آسانی کے ساتھ کر سکیں گے۔ پاکستان کے ایک طبقہ کی حمایت نوا ز شریف کو ابھی بھی حاصل ہے اس لیے ممکن ہے کہ انصاف کے تقاضے زیادہ حد تک پورے ہوں اور نواز شریف پر بوجھ کم سے کم ہو ۔
البتہ ان کو ان تمام مقدمات کا سامنا کرناپڑے گا بلکہ مستقبل قریب میں ان کے خلاف مزید مقدمات کھلنے کے امکانات موجود ہیں ۔ خصوصاً بھارت کے ساتھ روابط اور اس کے ساتھ غیر قانونی تجارت اور بھارت کو سالانہ پانچ ارب ڈالر کی ترسیل جس میں 2013ء میں ن لیگ کی حکومت قائم ہونے کے بعد زیادہ تیزی آئی اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور ابھی تک حکومت پاکستان کی طرف سے اس کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔
گزشتہ ستر سالوں میں ایران کے ساتھ تجارت ایک ارب ڈالر کے آس پاس رہی اور چین کے ساتھ بھی تجارت کم ہی رہی ۔ صرف نواز شریف کے دور میں بھارت کے ساتھ پانچ ارب ڈالر یا اس سے زیادہ ترسیل زر کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہیں تو گمان ہے کہ یہ راز بھی انہی مقدمات کے دوران کھلے گا اور نواز شریف کا موقف بھی معلوم ہوجائے گا۔ تاہم ریاستی اداروں نے ان کے اور انکے خاندان کے افراد کے خلاف تین ریفرنسز داخل کیے ہیں۔
آئندہ چند دنوں میں نواز شریف ‘ ان کے خاندان کے افراد اور اسحاق ڈار کے خلاف فرد جرم عائد کی جائے گی اور اس کے بعد مقدمات تیزی سے چلائے جائیں گے تاکہ سپریم کورٹ کی مقرر کردہ مدت سے قبل ہی ان کا فیصلہ عوام کے سامنے آجائے ۔ آئینی اور قانونی طورپر نواز شریف کو نا اہل ہونے کی سزا سنائی جا چکی ہے وہ اب ملزم نہیں مجرم ہیں ۔یہ فیصلہ سپریم کورٹ کا ہے اور اس پر نظر ثانی کی درخواستیں بھی مسترد کی جا چکی ہیں اس لیے وہ سزا یافتہ ہیں ۔
سیاسی طورپر ایک بات بالکل واضح ہے کہ نواز شریف کی سیاسی موت واقع ہوچکی ہے لہذاان کے خاندان کے دوسرے اراکین کا بھی پاکستانی سیاست میں کوئی مستقبل نہیں ہے ۔ ماڈل ٹاؤن کا قتل عام اور اس کا مقدمہ شہباز شریف کے گردن پرلٹک رہا ہے ۔
اس حوالے سے کمیشن کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد شہباز شریف ، ان کے وزراء اور افسران پر بھی قتل عام کے مقدمات قائم ہوں گے اور یقیناً ان کوبھی عدالتوں سے سزائیں ملیں گی ۔
اس لیے مسلم لیگ ن کا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے ، جس طرح سے ق لیگ سے لوگ اور رہنماء ن لیگ میں شامل ہوئے تھے اس سے دگنی رفتار سے یہی لوگ سرکار کی سرپرستی میں کسی اور لیگ میں دوبارہ شامل ہوں گے اور مسلم لیگ ن کا نام و نشان بھی مشکل سے ملے گا ۔
یہ عناصر اس مسلم لیگ میں شامل ہوں گے جس کو مقتدرہ کی حمایت حاصل ہوگی ، وہ مقتدرہ کے احکامات کا انتظار کررہے ہیں۔ چوہدری نثار نے مسلم لیگ کی پالیسی سے پہلے ہی کنارہ کشی اختیار کر لی ہے بلکہ اعلانیہ طورپر مسلم لیگ ن کے وزراء کے خلاف بیانات دے رہے ہیں ۔ ایک طرح سے چوہدری نثار نے بھی اپنی پارٹی سے لا تعلقی کا اظہار کیاہے ۔