|

وقتِ اشاعت :   September 28 – 2017

آزاد کردستان پر ریفرنڈم پر امن طریقے سے مکمل ہوا۔ کسی قسم کی ہنگامہ آرائی ، لڑائی اور کشیدگی کی اطلاع نہیں ملی ۔ آزاد کردستان کے حق میں 76فیصد ووٹ آئے ، ان ووٹروں نے عراق سے مکمل طورپر آزادی کی حمایت کی، اس میں کرکوک کا خطہ بھی شامل ہے ۔

صدام حسین کے زمانے میں کردوں کے خلاف زبردست فوجی کارروائی ہوئی ، کرکوک کی کرد آبادی پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملے کیے گئے اور کرد آبادی کو انخلاء پر مجبور کیا گیا ۔ صدام حسین کی حکومت نے دانستہ طورپر کرکوک کے علاقے میں ترکمان اور عربوں کو آباد کیا اور یہ کوشش کی کہ کردوں کی عددی اکثریت کو ختم کیاجائے ۔ انتظامی طورپر بھی اس کو کردستان سے الگ کیا گیا ۔

کردوں نے بہادری اور دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کرکوک میں بھی ریفرنڈم کروایا اور وہاں سے بھی واضح اکثریت حاصل کی جس پر ترکی اور عراقی حکومت چراغ پا ہوگئی ہے۔ پہلے تو ان دونوں ممالک نے دھمکیاں دیں لیکن کرکوک میں پھر بھی ریفرنڈم کروایا گیا اور عراق اور ترکی کی دھمکیوں کو نظر انداز کیا گیا ۔ انتخابی عمل اور خصوصاً ووٹنگ کے دن ایران کے جنگی طیاروں نے کردستان پر پروازیں کیں اور کرد آبادی کو ہراساں کیا۔ 

دوسری طرف ترکی نے اپنی افواج عراقی کردستان کے سرحد پر روانہ کیں اور وہاں جنگی مشقیں شروع کیں ۔ لیکن کردآبادی ان دھمکی آمیز اقدامات سے مرعوب نہیں ہوئے۔ ووٹنگ کا عمل بخیرو خوبی سرانجام پایا اور اکثریتی آبادی نے کردستان کی آزادی کے حق میں ووٹ دیا۔ ادھر عراقی پارلیمان نے کردستان کے خلاف فوجی کارروائی کا حکم دیا ہے ، عراقی وزیراعظم نے یہ اعلان کیا ہے کہ آزاد کردستان کی ووٹنگ پر علاقائی حکومت سے مذاکرات نہیں ہوں گے ۔ 

کرد حکومت نے دنیا بھر کے اپیلوں کو نظر انداز کیا اور استصواب رائے کروائی ،اس بات کو دنیا کے سامنے ثابت کیا کہ کرد آزادی چاہتے ہیں ۔ عراقی کردستان کے علاقائی حکومت کے جو صدر ہیں انہوں نے یہ بر ملا اعلان کیاکہ ضروری نہیں اس فیصلے پر عمل درآمد کیاجائے ۔

البتہ اس نے اس ریفرنڈم کی بنیاد پر علاقائی حکومتوں خصوصاً عراق ‘ ایران اور ترکی سے بات چیت کے آغاز کا اظہار کیا مگر عراق ‘ ترکی اور ایران نے اس پر سخت موقف اپنایا ہوا ہے ۔ عراق کی مرکزی حکومت نے اس امر سے انکار کیا ہے کہ استصواب رائے کے نتیجے میں عراقی کردوں سے کوئی بات چیت ہوگی بلکہ عراقی پارلیمان نے تو حکومت کو یہ حکم دیا ہے کہ عراقی کردستان کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز کیا جائے۔ 

ایران ‘ ترکی اور عراق یہ الزامات لگارہے ہیں کہ امریکی ایماء پر کرد ووٹنگ ہوئی اور اس کا مقصد عراق کے حصے بخرے کرنا ہے ۔ دوسری طرف عراق پر ایران کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کی وجہ سے سعودی عرب ‘ گلف کے ممالک کردوں کی آزادی کے حامی نظر آتے ہیں ۔

پورے ریفرنڈم کے دوران سعودی عرب اور گلف ممالک کی جانب سے عراقی کردوں کے خلاف کوئی بیان نہیں آیا شاید وہ کردوں کی عراق میں بڑھتی ہوئی قوت کو اپنے مفاد میں دیکھتے ہیں جس سے عراق پر ایران کا اثرورسوخ کم ہو سکتا ہے ۔ روایتی طورپر سعودی عرب کی جانب سے ایک خفیف سا بیان آیا تھا جس میں کرد رہنماؤں کو ریفرنڈم ملتوی کرنے کا کہا گیا تھا۔

بہرحال تازہ حالات یہ ہیں کہ عراقی حکومت نے یہ حکم دیا ہے کہ تمام ائیر پورٹس بند کیے جائیں جبکہ ایرانی فضائیہ کردستان پر پروازیں کررہی ہے ۔ عراقی پارلیمان نے بھی کردستان کے خلاف فوجی کارروائی کا حکم دے دیا ہے ۔

خطے کی صورتحال انتہائی خطر ناک ہوچکی ہے اور اگر اس خطے میں جنگ چھڑ گئی تو وہاں کے عوام کو زبردست نقصان ہوگا ۔اگر کردستان کے خلاف ایران ‘ ترکی اور عراق نے فوجی کارروائی کی تو ممکن ہے کہ امریکا بھی اس علاقائی جنگ میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ شامل ہوجائے ۔