گزشتہ کئی ماہ سے جعلی اور غیر معیاری ادویات کے خلاف ایک کامیاب مہم چل رہی تھی اس مہم کے دوران 160سے زائد مقدمات نہ صرف درج ہوئے بلکہ عدالت میں کارروائی کے لئے پیش بھی ہوئے اور عدالت آئے دن اس حوالے سے احکامات جاری کرتی رہتی ہے ۔
جن میں ملزمان کو عدالت میں پیش ہونے کے نوٹسز کے علاوہ گرفتاری کے احکامات بھی شامل ہیں ۔ عوام الناس نے متعلقہ ادارے اور عدالت کی کارروائی پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اور یہ امید ظاہر کی ہے کہ ایک آدھ سال میں جعلی اور غیر معیاری ادویات کے خلاف حکومت بلوچستان یہ جنگ جیت لے گی اور یہ پہلا صوبہ ہوگا جہاں پر جعلی اور غیر معیاری ادویات کی خرید و فروخت نا ممکن بناد ی جائے گی ۔
اس مہم کے روح رواں ایک جونئیر افسر ڈاکٹر امداد بلوچ ہیں جو ادارے کے سیکرٹری کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ۔ ان کی تعیناتی سے قبل یہ ایک نامعلوم ادارہ تھا اور ڈرگ مافیا کے ماتحت تھا اس لیے سالوں سے جعلی اور غیر معیاری ادویات کے خلاف ایک بھی کارروائی نہیں ہوئی کیونکہ اس کے افسران بذات خودجعلی اور غیر معیاری ادویات کے کاروبار میں ملوث تھے ۔
گزشتہ سال جب ڈاکٹر امداد کو سیکرٹری تعینات کیا گیا ، اس دن سے اس ادارہ نے مستعدی سے جعلی اور غیر معیاری ادویات کے خلاف زبردست مہم کا آغازکیا اور ابتدائی طورپر بڑی کامیابی سے یہ مہم چلتی رہی ۔اس وقت سے اس گھناؤنے کاروبار میں ملوث افراد کی تلاش جاری ہے ۔اب تک کروڑوں روپے مالیت کی جعلی اور غیر معیاری ادویات ضبط کر لی گئی ہیں بہت سی ادویات فروش دکانیں سیل کردی گئیں ہیں۔
یہ معاملہ صرف کوئٹہ کے مرکزی شہر تک محدود نہیں رہا بلکہ اتنی ہی زور و شور سے یہ مہم بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں بھی شروع کی گئی ہے ۔ حکومت بلوچستان نے جتنے ادویات کی خرید و فروخت کے لائسنس جاری کیے ہیں اس سے کہیں زیادہ دکانیں کوئٹہ اور دوسرے شہروں میں موجود ہیں ۔
گزشتہ ادوار میں کرپٹ انتظامیہ کی موجودگی میں دکاندارکھلے عام جعلی اور غیر معیاری ادویات فروخت کرتے تھے ، اکثر دکاندار بھی مستند ایجنٹ کی بجائے نا معلوم افراد سے ادویات کی خریدو فروخت کو ترجیح دیتے تھے اور پانچ سے لے کر اسی فیصدتک منافع حاصل کرتے تھے۔ چنانچہ کوئٹہ کے ہر محلے میں ادویات تیار کرنے کی فیکٹریاں کھل گئیں جن کا آج تک قلع قمع نہیں ہوا اور نہ ہی اس کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔
ہزاروں کی تعداد میں دکانیں بغیر لائسنس کے ادویات فروخت کررہی ہیں ،اس پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے اگر غصہ ہے تو اس ایماندار افسر پر جس نے بہت ہی مختصر وقفہ میں سینکڑوں کی تعداد میں جعلی اور غیر معیاری ادویات کے کیس پکڑ ے اور ان کو عدالت کے سامنے پیش کیا، ایسے مقدمات دو سو کے لگ بھگ بتائے جاتے ہیں ۔
بلوچستان میں ایک اندازے کے مطابق 3000میڈیکل اسٹور ہیں جن میں سے ایک تہائی کے پاس با قاعدہ اجازت نامہ ہوگا، باقی زیادہ تر غیر قانونی ہیں ۔ ادویات کی بڑی کھیپ پنجاب اور سندھ سے آتی ہے ان میں ایک بہت بڑی تعداد غیر معیاری ادویات کی ہے۔
مبینہ طور پر اس سارے عمل کو ڈرگ مافیا کنٹرول کرتا ہے یہ اربوں روپے کا بزنس ہے ۔ اتنے بڑے مافیا کی موجودگی میں ایک ادنیٰ سا بلوچستان جیسے صوبے کا افسر اس غیر قانونی کاروبار کاخاتمہ نہیں کر سکتا البتہ ڈرگ مافیا نے اپنے اثر و رسوخ سے ڈاکٹر امداد بلوچ کو اس کے عہدے سے ہٹانے میں کامیابی ضرورحاصل کی ۔
ان کا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے بڑی تعداد میں کروڑوں مالیت کی جعلی اور غیر معیاری ادویات پکڑیں اور ان کے مقدمات صاف اور شفاف انداز میں عدالت میں پیش کیں جہاں ان کو یقینی طورپر سزاؤں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب صوبائی حکومت عوام الناس کو یہ بتائے کہ اس ایماندار افسر کوکس مافیا کے مطالبے پر عہدے سے ہٹایا گیا ۔
وزیراعلیٰ اور چیف سیکرٹری اس بات کا نوٹس لیں اور ڈرگ مافیا کے خلاف کارروائیاں جاری رکھنے کے لئے ڈاکٹر امداد بلوچ کو مکمل اختیارات کے ساتھ بحال کیاجائے تاکہ عوام کو یہ یقین ہو کہ حکومت بلوچستان پر ڈرگ مافیا کا کنٹرول نہیں ہے ۔