|

وقتِ اشاعت :   October 3 – 2017

 اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے عمران خان کی نااہلی سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ عمران خان نے جمائما سے لیے قرض کوظاہر نہیں کیا لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ جائیداد ظاہر کرنے کے بعد قرض ظاہر کرنے سے فرق پڑتا ہے۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ عمران خان نااہلی کیس کی سماعت کررہا ہے، سماعت کے آغاز پر حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے 2 خطوط پر ایڈریس مختلف ہیں، خطوط کے لیے عمران خان کینسر اسپتال کے لیٹرہیڈ استعمال ہوئے اور دونوں خطوط میں فیکس نمبربھی مختلف ہیں۔

 چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل نعیم بخاری کی عدم حاضری پر فیصل چوہدری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اکرم شیخ کہہ رہے ہیں کہ دونوں خطوط مصدقہ نہیں ہیں اور انہوں نے دونوں خطوط کی ساکھ پرسوال اٹھائے ہیں۔

اکرم شیخ نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ دونوں دستاویزات ایسی نہیں عدالت میں پیش کی جائیں، بنی گالہ اراضی کے نقشے کے لیے 79 ہزار پاؤنڈ ادا کیے گئے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ رقم جمائما سے آئی یا عمران خان نے ادا کی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شیخ صاحب یہ آپ کا مقدمہ نہیں، آپ کامقدمہ ہے کہ آف شور کمپنی کو ظاہر نہیں کیا گیا، اکرم شیخ نے کہا کہ عمران خان نے اپنی 1982 سے 2002 تک آمدن 21 ملین بتائی جب کہ بنی گالہ اراضی کی تعمیر پر 70 ملین کے اخراجات آئے۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا جن نکات پر آپ دلائل دے چکے ہیں وہ کمزور ہیں، ہم سے اکاؤنٹنگ کا کام نہ کروائیں، آپ کے منہ سے قانون کی بات اچھی لگتی ہے، جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ نیازی سروسز لمیٹڈ کے علاوہ کوئی دوسرااثاثہ سامنے نہیں آیا، اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ میرے اتنے وسائل نہیں کہ معلوم کرسکوں کوئی دوسرا اثاثہ تھا، یہ حقیقت ہے کہ نیازی سروسز لمیٹڈ کمپنی 2015 تک فعال رہی جب کہ عمران خان 2013 کے الیکشن میں نیازی سروسز لمیٹڈ کمپنی کو ظاہر کرسکتے تھے، نیازی سروسز لمیٹڈ کمپنی کے اکاؤنٹ میں عمران خان کی کتاب اور کرکٹ آمدن بھی آتی رہی جب کہ عمران خان این ایس ایل کمپنی کے اکاونٹ میں رکھے پیسوں کواستعمال کرتے تھے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ان حالات میں ہم کیا کرتے، کیا ہمارے پاس ریکارڈ طلب کرنے کا اختیار ہے جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ نیازی سروسز کمپنی کے اکاونٹ میں موجود ایک لاکھ پاؤنڈ کس کے تھے، عمران خان نے این ایس ایل کے اثاثے 2002 اور 1997 کے کاغذات میں نہیں بتائے۔

جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ پیسہ کہیں بھی رکھا جائے کسی کا کیا جاتا ہے جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ کسی کا کچھ نہیں جاتا قانون کا بہت کچھ جاتا ہے، عدالت خود دیکھ لے کہ این ایس ایل کو ظاہر کیا گیا تاہم میرامقدمہ اثاثے ظاہرنہ کرنے کا ہے، جمائما کو ایک لاکھ 80 ہزار ڈالرز قرض سے زیادہ ادا کیے، جتنا قرض تھا اتنا ہی ادا کرنا چاہیے تھا۔

عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے عدالت میں پہنچنے کے بعد کہا کہ میری طبیعت کل سے ناساز ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اکرم شیخ نے سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں، جمائما خان کی طرف سے راشد خان کو رقم بھیجنے پرسوال نہیں اٹھائے جب کہ عمران خان کا قرض لینا الیکشن کمیشن کے ریکارڈ سے ثابت نہیں ہوتا لہذا جو مقدمہ ثابت شدہ ہے اسی پر زور ڈالوں گا۔

اکرم شیخ نے کہا کہ یہ ثابت شدہ ہے کہ جمائما سے عمران خان نے قرض لیا، کاغذات نامزدگی میں قرض ظاہر نہیں کیاگیا جس پر جسٹس عمرعطابندیال نے ریمارکس دیا کہ یہ میاں بیوی کے درمیان معاملہ تھا، اکرم شیخ نے دلائل میں کہا کہ معاملہ باپ بیٹے کا ہو یا میاں بیوی کا قانون کی نظرمیں دیکھناہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قرض ظاہرنہیں کیالیکن جمائما کے نام اراضی کو ظاہرکردیا جس پر شیخ اکرم نے کہا کہ عمران خان نے اپنے پہلے تحریری جواب میں کہاں لکھا ہے کہ زمین جمائما کے لیے خریدی جب کہ آخری جواب میں عمران خان نیا موقف پیش کرتے ہیں، عمران خان آخری جواب میں کہتے ہیں زمین سے انکا تعلق نہیں، وہ کہتے ہیں زمین براہ راست جمائما نے خریدی، مجھے بتادیں میں عمران خان کے کس جواب پر انحصار کروں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جواب میں تضاد کدھر ہے، مان لیں جائیداد بے نامی تھی تاہم جواب میں لکھا ہے کہ ادائیگی جمائما نے بینک کے ذریعے بھیجی رقم سے کی، دیکھنا یہ ہے کہ بے ایمانی ہوئی ہے جب کہ بنی گالہ اراضی بے نامی ہوتوبھی فرق نہیں پڑتا۔

جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ عمران خان نے برطانیہ سے رقم آنے کا ریکارڈ دکھادیا، 65لاکھ عمران خان نے پہلے جب کہ 5 لاکھ 62 ہزار پاونڈ بعد میں تحفہ کیے جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ 5 رکنی بینچ کا فیصلہ دیکھ لیں کیا تنخواہ لینے کا ادارہ تھا کہ نہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہوسکتا ہے پاناما فیصلہ اس مقدمے کے لیے متعلقہ نہ ہو، جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا وہ فیصلہ پڑھ لیں۔ اکرم شیخ نے کہا کہ عدالت کے کہنے پر پاناماکا فیصلہ دوبارہ پڑھا ہے۔

اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ 30 جون 2002 تک عمران خان کے نام قرض واجب الادا تھا،الیکشن کے کاغذات میں قرض کو ظاہر نہیں کیا، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پاناما میں معاملات کمپنی کے درمیان تھے اور پاناما میں تنخواہ کا معاملہ بیٹے اور باپ کے درمیان نہیں تھا جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ یہ خاندانی کمپنی تھی خاندانی معاملہ تھا۔

اکرم شیخ نے دلائل میں کہا کہ عمران خان کی اپیل منظور ہونے پر وہ ممبر قومی اسمبلی بن گئے جب کہ پرویز مشرف عمران خان کو وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا 2013 کے الیکشن میں عمران خان نے غلط بیانی کی ہے، 2002 کے الیکشن میں نااہلی کا وقت گزر گیا لہذا ہمیں 2013کے الیکشن کے بارے میں بتائیں،

اکرم شیخ نے کہا کہ عدالت 2002 کے معاملے پر ایک رکن کو 2013 میں نااہل کر چکی ہے تاہم عدالت نے فیصلہ کرنا ہے جب کہ عمران خان مرد بنیں اور اپنی جائیداد ظاہر کریں، عمران خان مرد بنے سینہ تان کر کہے اراضی انہوں نے خریدی ہے، عمران خان ملک کے وزیراعظم بننا چاہتے ہیں۔

وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ  ابھی فیصلہ محفوظ نہیں کررہے، فیصلہ محفوظ کرلیا تو بعد میں سوال اٹھانا ممکن نہیں ہوگا جب کہ جہانگیرترین کیس میں بھی آف شورکمپنی کامعاملہ ہے، اگرعمران خان کیس سے متعلق مزید سوالوں کے جواب درکار ہوئے تو جوابات پوچھیں گے۔ جہانگیر ترین کے خلاف حنیف عباسی کی درخواست پر سماعت کل ہوگی۔