کوئٹہ: آڈیٹر جنرل پاکستان نے بلوچستان میں مالیات پر انتظامی کنٹرول کا پول کھول دیا۔ سالانہ آڈٹ رپورٹ میں 36محکموں میں 17ارب کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔
بورڈ آف ریونیو، خوراک، تعلیم، صحت اور پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے محکموں میں خورد برد ،چوری اور جعل سازی سے قومی خزانے کو 73کروڑ 29لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔
بورڈ آف ریونیو ،محکمہ مواصلات و تعمیرات ،محکمہ معدنیات ،محکمہ تعلیم اوربلوچستان کوسٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی مجموعی طور پر 7ارب 25کروڑ روپے کے اخراجات کا حساب دینے میں ناکام رہی۔
آڈیٹر جنرل پاکستان کی سالانہ رپورٹ برائے2016-17کے مطابق بلوچستان کے مالی سال 2015-16کے دو کھرب 23ارب بجٹ میں سے 36 محکموں کے ایک کھرب 50ارب روپے کے بجٹ کا آڈٹ ڈائریکٹر جنرل آڈٹ بلوچستان کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ ڈی جی آڈٹ بلوچستان نے مالی سال 2015-16کے بجٹ کا 72 ارب 76کروڑ 41لاکھ روپے کے اخراجات کا آڈٹ کیا جو مجموعی قابل آڈٹ رقم کا 48 فیصد بنتا ہے۔ جبکہ گزشتہ مالی سال 2016کے جنوری سے جون تک کے اخراجات کے آڈٹ کو بھی رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے۔
مجموعی طور پر 75ارب 34کروڑ روپے کے اخراجات کا آڈٹ کیا گیا جس میں 17ارب 84 کروڑ روپے کے اخراجات کو بے قاعدہ اور بے ضابطہ قرار دیتے ہوئے ان پر تحفظات اور اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔
14ارب روپے وصولیوں جبکہ 3ارب روپے کی بے ضابطگیاں سول ورکس کے معاملات سے متعلق ہیں۔ گزشتہ آڈٹ رپورٹ کے مقابلے میں نئی رپورٹ میں مالی بے ضابطگیوں میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر بڑے پیمانے پر آڈٹ کیا جائے تو بے ضابطگیاں اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہیں۔ ایگزیکٹیو اتھارٹیز کو آڈٹ میں اٹھائے گئے نکات سے سیکھنا چاہیے۔رپورٹ میں کمزور مالی ضابطوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ محکموں اور ان کے ماتحت دفاتر کے آڈٹ کے دوران بیشتر اداروں اور محکموں میں مؤثر انتظامی کنٹرول نہیں دیکھا گیا۔
داخلی انتظامی کنٹرول کے مؤثر نہ ہونے کا انداز ا اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہر سال باقاعدگی سے کرائے گئے آڈٹ میں ایک ہی طرح کی بے ضابطگیاں سامنے آتی ہیں۔
آڈٹ رپورٹ میں اثاثوں کے ناقص انتظامات (ان ساؤنٹ ایسسٹ مینجمنٹ)کی مد میں 2ارب 5کروڑ روپے، کمزور مالیاتی انتظامات (ویک فنانشل مینجمنٹ)کی مد میں 7 ارب 38 کروڑ روپے ، مالیاتی انتظامات سے جڑے کمزور داخلی ضابطوں (ویک انٹرنل کنٹرولز ریلیٹنگ ٹو فنانشل مینجمنٹ) کی مد میں 7ارب 67کروڑ روپے کے معاملات پر آڈٹ آبزوریشن کا اظہار کیاگیا ہے۔
آڈیٹرز کی جانب سے نشاندہی کی گئی مالی بے ضابطگیوں کی تفصیلات میں مزید بتایا گیا ہے کہ مالی اصولوں اور دیانت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 7ارب38 خرچ کئے گئے۔ 2ارب 46کروڑ85 لاکھ روپے کے کیسز ریکوری ،اضافی ادائیگیوں اور قومی خزانے کے بجا استعمال سے متعلق ہیں۔
15مختلف مدات میں سرکاری وسائل کے غلط استعمال، چوری ، خورد برد اور جعلسازی کرتے ہوئے قومی خزانے کو 73کروڑ 29لاکھ روپے نقصان پہنچایا گیا۔ سب سے زیادہ خورد برد اور چوری محکمہ خوراک میں ہوئی۔
اس کے بعد بورڈ آف ریونیو کے معاملات میں ڈپٹی کمشنرز، محکمہ ، صحت اور پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے شعبوں میں بھی خورد برد ہوئی۔رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ تحقیقات کرکے مشکوک ادائیگیاں کرکے قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کا تعین کیا جائے۔ آڈٹ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بلوچستان حکومت 7ارب 25کروڑ روپے کے اخراجات کا ریکارڈ دینے میں ہی ناکام رہی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آڈیٹر جنرل کو آئین کی شق 170 ٹو اور آڈیٹر جنرل آرڈیننس کے تحت 2001 کے تحت وفاقی و صوبائی حکومت یا ان کے ماتحت کسی بھی ادارے کے کھاتوں کی جانچ پڑتال کا اختیار حاصل ہے اور تمام متعلقہ دستاویز کی ذمہ داری متعلقہ محکمے اور آفیسر کی ذمہ داری ہے لیکن آئینی و قانونی تقاضے کے باوجود بورڈ آف ریونیو نے کمشنر کوئٹہ ڈویژن، کوئٹہ، گوادر، ڈیرہ بگٹی اور قلات کے ڈپٹی کمشنرز کے ذریعے خرچ کئے گئے 6ارب 11کروڑ روپے کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا۔
اسی طرح محکمہ مواصلات و تعمیرات نے بی اینڈ آر لسبیلہ، لورالائی اور موسیٰ خیل کے ایک ارب 70کروڑ روپے کے اخراجات کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا۔محکمہ معدنیات کے سیندک پراجیکٹ سے متعلق معاملات، محکمہ تعلیم کے ڈائریکٹر ایجوکیشن سکول کوئٹہ،ڈائریکٹر ٹیکنیکل ایجوکیشن کوئٹہ سے متعلق اوربلوچستان کوسٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے بھی بعض معاملات میں ریکارڈ فراہم نہیں کیا۔
آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریکارڈ کی عدم فراہمی سنگین بے ضابطگی ہے جو آڈٹ کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کے مترداف ہے۔ آڈٹ میں تجویز کیاگیا ہے کہ انسپکشن کیلئے ریکارڈ فراہم نہ کرنے پر ذمہ دار افراد کا تعین کیا جائے۔ متعلقہ محکموں کے سربراہان کو ریکارڈ فراہم نہ کرنے والے اہلکاروں کے خلاف تادیبی کارروائی کرنی چاہیے۔
اس کے علاوہ 14 ایسے معاملات کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس میں 9کروڑ96لاکھ روپے کی ٹیکس اور ڈیوٹی کی مد میں کٹوتیاں نہیں کی گئیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آڈٹ کے دوران مالی سال 2015-16 میں 10ارب 23کرو ڑ 59 لاکھ روپے کی ریکوریز کی نشاندہی ہوئی۔ رپورٹ کے دوران 73کروڑ27 لاکھ روپے کی ریکوری ہوئی۔
اس میں 71کروڑ 94 لاکھ روپے کی ریکوری آڈٹ سے قبل متعلقہ حکام کے علم میں نہیں تھی۔ جبکہ 2ارب 5کروڑ روپے قابل وصول ہونے کے باوجود ریکور نہیں کئے گئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مختلف محکموں نے 26کروڑ 71 لاکھ روپے کے اخراجات بجٹ میں منظوری کے بغیر کئے۔
ان میں سے بیشتر اخراجات محکمہ تعلیم نے تنخواہوں اور الاؤنسز کی مد میں کئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسی طرح کی بے ضابطگی گزشتہ سال بھی دیکھی گئی جب بجٹ میں مختص کئے بغیر 3ارب 29کروڑ روپے کے کے اخراجات کئے گئے تھے۔
اس سلسلے میں محکمہ خزانہ کے محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹی میں معاملہ اٹھایا گیا لیکن کئی بار یاد دہانی کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ سال 2015-16کے آڈٹ کے دوران مشاہدے میں آیا کہ نظرثانی شدہ بجٹ سے 15ارب 22کروڑ روپے کے زائد اخراجات کئے گئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمزور مالی کنٹرول نہ صرف بجٹ کی ناقص منصوبہ بندی بلکہ اصل بجٹ کے مقابلے میں غلط تخمینہ جات کا باعث بنتا ہے۔رپورٹ میں تجاویز دی گئی ہیں کہ پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسرز یعنی محکموں کے سربراہان کو بلوچستان پبلک پروکیورمنٹ رولز پر سختی سے عملدرآمد کرنے کی ضرورت ہے۔
ورکس ڈیپارٹمنٹ مقررہ کردہ نرخوں اور متعین کردہ ضابطوں کی پاسداری کریں۔ سول ورکس ورکس ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے کرانے چاہئیں۔ ترقیاتی منصوبوں میں اوورلاپنگ سے گریز کیا جائے۔
ریونیو جمع کرنے والے محکموں کے سربراہان ٹیکس اور ڈیوٹیوں کے حصول کیلئے سنجیدہ کوششیں کریں ۔ مکمل اخراجات کے ریکارڈ کے بغیر سرکاری خزانے سے رقوم جاری کرنے سے اجتناب کیا جائے۔
پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) ترقیاتی منصوبوں تک محدود ہونا چاہیے ۔ترقیاتی منصوبوں کی رقم علاج اور طلباء کو سکالر شپ جیسی سرگرمیوں پر خرچ نہ کی جائے۔