امریکا کے علاوہ ایران جوہری معاہدہ پر دستخط کرنے والے تمام ممالک نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایران بین الاقوامی جوہری معاہدہ پر ایماندارانہ طورپر عمل کررہا ہے ان تمام ممالک کو ایران کے خلاف شکایات نہیں مگر امریکی صدر کی رائے ان تمام ممالک سے مختلف ہے ۔
شاید ہر قیمت پر امریکا ایران کے ساتھ تعلقات کشیدہ رکھنا چاہتا ہے ۔ گزشتہ دنوں امریکی صدر نے فوجی کمانڈروں کے ایک اجلاس کی صدارت کی اور اس کے بعد میڈیا کو ان فیصلوں کے بارے میں خوفناک اشارے دئیے ۔
انہوں نے کہا کہ یہ طوفان سے قبل کی خاموشی ہے ۔ جس کا مطلب امریکی ذرائع نے یہ نکالا کہ صدر ٹرمپ اگلے ہفتے ایران جوہری معاہدے سے الگ ہوجائے گا اور اس کے بعد امریکا ایران پر اقتصادی پابندیاں لگائے گا۔
بعض مبصرین کا یہ خیال ہے کہ امریکی صدر کا یہ عمل ایران کے خلاف اعلان جنگ کے مترادف ہوگا جس پر ایران کاا نتہائی شدید رد عمل آسکتاہے۔
امریکا یہ الزام مسلسل لگا رہا ہے کہ ایران پورے خطے میں عدم استحکام کا باعث ہے اور وہ دہشت گردی اور جارحیت کو فروغ دے رہا ہے۔ اور یہ کہ ایران خطے کے جنگوں میں ملوث ہے ۔
ان تمام الزامات کا مطلب یہ لیا جارہا ہے کہ امریکا اگلے ہفتے اس بات کا باقاعدہ اعلان کرے گا کہ وہ ایران کے جوہری معاہدے سے الگ ہورہا ہے امریکی صدر کے اس ممکنہ فیصلے کو امریکی ایوان نمائندگی حمایت حاصل نہیں ہوگی
البتہ امریکی کانگریس میں ایک طاقتور لابی ایران کے خلاف کارروائی کے لئے مسلسل زور دے رہا ہے امریکی صدر کا یہ فیصلہ 12اکتوبر کو متوقع ہے اور 90دن مکمل ہونے کے بعد امریکی صدر ایران جوہری معاہدے کی تصدیق نہیں کرے گا ۔
ان تمام اقدامات سے امریکہ ایران کے ساتھ کشیدگی کو بڑھاوا دے رہا ہے جو خطے کے امن اور سلامتی کے لئے کوئی نیک شگون نہیں ہے ۔
امریکی اور ایرانی بحریہ گلف میں ایک دوسرے کے جہازوں کا نہ صرف پیچھا کرر ہے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے خلا ف اشتعال انگیز کارروائیوں کے مسلسل الزامات لگا رہے ہیں۔
امریکا کو خطرہ ہے کہ ایران کسی بھی وقت معمولی اشتعال انگیزی کے بعد ہر مز کی گزر گاہ کو بند کرکے جہاز رانی اور دنیا کی معیشت کو تیل کی فراہمی روک سکتا ہے جو امریکا اور اس کے ناٹو اورعرب ممالک کے خلاف اقدام جنگ تصور کیاجائے گا۔ واضح رہے کہ آبنائے ہرمز ساحل مکران پر واقع ہے ۔
ساحل مکران پر جنگ کے اثرات گوادر ‘ اورماڑہ اور بلوچستان کی ساحلی پٹی پر بھی پڑیں گے۔ ایران کا سب سے بڑا بحری اور بری اڈہ گوادر سے 120کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے جس کو خود امریکیوں نے شہنشاہ ایران کے دور میں تعمیر کیا تھا ۔
اس کے علاوہ ایران کے دوسرے چھوٹے بڑے بحری اور بحری اڈے موجود ہیں جہاں ایران امریکی اور ناٹو افواج کے خلاف کارروائی کر سکتاہے ۔
دوسرے الفاظ میں ایرانی بلوچستان پر ایک بڑے جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں اور آنے والے دنوں میں کشیدگی میں اضافہ کا اثر پاکستانی بلوچستان پر پڑے گا۔
امید ہے کہ ہمارے دفاعی افواج ان مشکلات کا سامنا کرنے کو تیار ہیں ابھی تک یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ امریکا نے پاکستان سے امداد طلب کی ہے یا نہیں ۔
کیا امریکا پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر ایران کے خلاف کارروائی کرے گا۔ اس لیے آرمی چیف کا مجوزہ دورہ ایران زیادہ اہمیت کا حامل ہوگا۔
ہمیں نہیں معلوم کہ پاکستان کا اس کشیدہ صورت حال میں کیا کردار ہوگا ۔کیا امریکی اور ناٹو افواج ایران اور پاکستان کے خلاف بہ یک وقت کارروائی کریں گے یا پاکستان سے امداد طلب کریں گے کہ امریکا گوادر اور دوسری بندر گاہیں استعمال کرنے کی اجازت دے ۔
مگر اس بات کا پاکستان میں تصور ہی نہیں ہوگا کہ پاکستان ایران کے خلاف امریکا کی مدد کرے گا ۔ محتاط اندازے ہیں کہ پاکستان ایران پر حملہ کرنے کے لئے پاکستانی بلوچستان کی سرزمین اور بندر گاہیں استعمال نہیں ہونے دے گا۔