صبح سویرے فرقہ وارانہ دہشت گردوں نے پانچ معصوم انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔فرقہ پرست دہشت گردموٹر سائیکلوں پر سوار تھے کہ انہو ں نے سبزی منڈی جانے والی گاڑی میں سوار ہزارہ برادری کے تین افراد کو قتل کردیا۔
انہوں نے اندھا دھند گولیاں چلائیں جس سے گاڑی میں سوار تینوں افراد اور ڈرائیور موقع پر ہلاک ہوگئے اورایک راہ گیر بھی گولیاں لگنے سے ہلاک ہوا۔
یہ واقعہ کاسی روڈ کے علاقے میں پیش آیا۔ہزار ہ برادری کے تینوں افراد سبزی فروش تھے ،وہ سبزی منڈی جار ہے تھے کہ انہیں دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ گوکہ کسی گرو ہ نے اس کی باضابطہ ذمہ دار ی قبول نہیں کی تاہم یہ قرین قیاس ہے کہ اس میں فرقہ وارانہ دہشت گرد ملوث ہیں کیونکہ ماضی میں بھی ہزارہ برادری کے افراد کو وقتاً فوقتاً قاتلانہ حملو ں کا نشانہ بنایاجاتا رہا ہے۔
گزشتہ 20سالوں سے اس قسم کی کاروائیاں بلا روک ٹوک جاری ہیں ۔ آئے دن اس قسم کے واقعات کوئٹہ میں ہوتے رہتے ہیں ۔ حکومت اپنے ہی شہریوں کی جان و مال کی حفاظت میں مکمل ناکام دکھائی دیتی ہے۔
ایک دو واقعات کو چھوڑ کرگزشتہ دو دہائیوں کے دوران فرقہ وارانہ دہشت گردی کا کوئی بڑا مقدمہ سامنے آیا ، نہ ہی کوئی گرفتاری ہوئی اور نہ ہی کسی کو سزا ہوئی ۔
دہشت گردی کے خلاف کامیابی کے بلندو بانگ دعوے کیے جارہے ہیں لیکن کوئٹہ شہر میں قتل عام رکنے کا نام ہی نہیں لیتا ۔فرقہ پرست عناصر ہمیشہ کی طرح کاروائیاں کرنے کے بعد فرار ہو جاتے ہیں شاہد سیکورٹی اہلکار ان کا پتہ لگانے میں دل چسپی نہیں رکھتے ۔یا پھرشاید ان کی تلاش کا کام ابھی تک شروع ہی نہیں ہوا۔
دوسری جانب بلوچستان پولیس کے بعض فرض شاس افسروں نے ایسی فرقہ وارانہ کاروائیوں میں ملوث گروہوں کی نشاندہی کی اور ان کوگرفتار کرنے کی کوشش بھی کی مگر ان پر اور ان کے اہل خانہ پر خودکش حملے ہوئے۔ تفتیش کی گئی تو معلوم ہوا کہ وہ بعض فرقہ پرست دہشت گردوں کی گرفتاری کے قریب پہنچ گئے تھے اس کے بعد ان کو قتل کیاگیا ۔
ان پولیس افسروں اور ان کے اہل خانہ پر زبر دست سیکورٹی زون کے علاقے میں خودکش حملہ کیاگیا ۔ہزارہ قبائل کو کیوں دہشت گردی کا نشانہ بنایا جارہا ہے ا س کی وجوہات آج تک معلوم نہ ہوسکیں ۔حکومت اور حکومتی ترجمان نے گزشتہ 20سالوں سے یہ وضاحت نہیں کی کہ ان پر کیوں حملے ہورہے ہیں۔
شیعہ پورے ملک میں رہتے ہیں لیکن کوئٹہ اور پار اچنار کے شیعہ حضرات کو یہ خصوصی حیثیت حاصل ہے کہ ان پر کھلے عام حملے کیے جاتے ہیں۔ کوئٹہ کے قتل عام پر ہزارہ ڈیموکرٹیک پارٹی کا شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ جس شہر کیسڑکوں ، کوچوں اور بازار وں میں لوگوں کو تاک کر نشانہ بنایا جا رہا ہے اس کے حکمرانوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ یہ دعویٰ کریں کہ بلوچستان میں امن ہے۔ ملک میں اربوں روپے سالانہ امن عامہ پرخرچ ہورہے ہیں اس کے باوجود لوگوں کی جان ومال محفوظ نہیں ہے ۔
صوبائی حکومت روزانہ امن وامان کی صورت حال میں بہتری کے دعوے کررہی ہے یہ بہتری کہاں ہے؟ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں ہزارہ برادری کو بار بار دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ۔انہوں نے کہا آج تک ہزارہ قوم کے قاتلوں میں سے کسی ایک کو پھانسی نہیں دی گئی۔
واضح رہے کہ واقعہ کے بعد ہزارہ برادری کے افراد نے بے گناہ لوگوں کے قتل عام پر شدید غصے کا اظہار کیا، زبر دست احتجاج کیا۔ لواحقین نے اس بات سے انکار کیا کہ وہ مقتول افراد کو دفنائیں گے۔
البتہ صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی موقع پر پہنچے، انہوں نے احتجاج کرنے والوں کو تسلی دی اور وعدہ کیا کہ دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کی جائے گی جس کے بعد لواحقین اورعلاقے کے لوگوں نے اپنا احتجاج ختم کیا۔