|

وقتِ اشاعت :   October 11 – 2017

اسلا م آباد: پاکستان میں سابق فوجیوں کی تنظیم نے ایک بیان میں کھل کر کہا ہے کہ انھیں وفاقی وزرا کے بیانات سے دکھائی نہیں دیتا کہ فوج اور حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک پیچ پر ہیں۔

وٹرنز آف پاکستان (جس کا ماضی میں نام پی ایس اے تھا) کی ایگزیکٹو کونسل کے ایک اجلاس کی صدارت لیفٹیننٹ جنرل علی قلی خان نے کی۔وزیر خارجہ خواجہ آصف نے ایک بیان میں پاکستان سے حقانی نیٹ ورک کے خاتمے سمیت مزید اقدامات کرنے کے امریکی مطالبے سے اتفاق کیا اور یہ بیان دراصل پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے بیان کی نفی کرتا ہے جس کے مطابق یہ گروپ کافی پہلے افغانستان منتقل ہو چکا ہے۔

اجلاس کا مزید کہنا تھا کہ فوجی سربراہ کے بیان کی تائید سابق افغان صدر حامد کرزئی کے بیانات سے بھی ہوتی ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ طالبان نصف افغانستان پر قابض ہیں لہٰذا وٹرنز کے بقول شدت پسندوں کو پاکستان میں کسی پناہ گاہ کی ضرورت نہیں ہے۔

وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کے امریکہ میں حالیہ بیانات پر پاکستان فوج نے تو اب تک کوئی باضابطہ ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے لیکن سابق فوجیوں کو لگتا ہے کہ وزیر خارجہ کا بیان قابل قبول نہیں ہے۔

اجلاس میں سابق وائس ایڈمرل احمد تسنیم، برگیڈئر میاں محمود، برگیڈئر اربی خان، سلیم گنڈاپور، کرنل دلیل خان، میجر فاروق حامد خان، برگیڈئر مسعود الحسن اور دیگر شریک تھے۔سابق فوجی اہلکاروں نے کہا کہ حامد کرزئی کے بیانات کہ امریکہ داعش کے جنگجوؤں کو مسلح کر رہا ہے کافی خطرناک پہلو ہے۔ 

ان کے مطابق یہی بیان دو افغان اراکینِ پارلیمان نے بھی دیا تھا۔ خود ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بطور صدر انتخاب سے قبل ہیلری کلنٹن پر دولت اسلامیہ تخلیق کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔سابق فوجیوں نے وزیر خارجہ کے اس بیان پر بھی کڑی تنقید کی کہ مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کو انڈیا کے حوالے کرنے کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے۔ 

ان کا موقف تھا کہ صرف مچھیرے ہی واپس کیے جاسکتے ہیں۔امریکہ سے واپسی پر سابق فوجی افسران کا کہنا تھا کہ وزیر خارجہ نے امریکہ کی جانب سے دی جانے والی دھمکی کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان کے لیے آخری موقع ہے اور پاکستان کو نقصان ہوگا۔ 

انھوں نے کہا کہ دفتر خارجہ نے فوجی سربراہ کے حالیہ کابل کے انتہائی کامیاب دورے کا بھی کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔اجلاس میں وزیر داخلہ احسن اقبال کی جانب سے فوج کے ساتھ احتساب عدالت پر رینجرز کی تعیناتی کے معاملے کو ایک نیا محاذ قرار دیا گیا۔ 

سابق فوجیوں کا خیال تھا کہ اس مسئلے پر عوامی سطح پر بیان دینے سے بہتر تھا کہ وہ واپس لوٹ کر تحقیقات کا حکم دیتے۔ بیان کے مطابق وزیر داخلہ کو ان کے فرائض کی سرانجام دہی سے کسی نے نہیں روکا تھا وہ تو عدالت ایک ملزم کے حامی کے طور پر جا رہے تھے۔