عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر اچکزئی نے ایک بار پھر متحدہ پختون صوبے کا مطالبہ دہرایا۔
کوئٹہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اصغر اچکزئی نے تجویزدی کہ پہلے مرحلے میں فاٹا کو کے پی کے میں ضم کیا جائے اور بعد میں دیگر پختون علاقوں کو بھی اس میں شامل کیا جائے۔
انہوں نے جمعیت علما ئے اسلام اور پختون خوا ملی عوامی پارٹی پر سخت تنقید کی کہ یہ دونوں دائیں بازوں کی پارٹیاں فاٹا کی کے پی کے میں انضمام کی مخالفت کررہی ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ دونوں پارٹیاں پختون علاقوں میں وجود رکھتی ہیں اور فاٹا اصلاحات کے بھی مخالف ہیں۔
بد نیتی کا اندازہ اس بات سے لگایا جائے کہ فاٹا کے عوام کو پہلے پشاور کی بجائے اسلام آبادہائی کورٹ میں اپیل کا حق دیاگیا لیکن زبر دست احتجاج کے بعد حکومت نے فیصلہ بدل دیا اور فاٹا کے عوام کا اپیل کا حق پشاور ہائی کورٹ منتقل کیا گیا جو ایک خوش آئند فیصلہ ہے۔
دوسری جانب سیاسی جماعتوں نے اسلام آباد میں بھی احتجاج شروع کیا اور مطالبہ کیا کہ فاٹاکو کے پی کے میں فوری طور پر شامل کیا جائے ۔
اسلام آباد کے اس مظاہرے میں عوامی نیشنل پارٹی کے علاوہ ملک کی بعض دیگربڑی پارٹیاں بھی شامل تھیں ۔
تحریک انصاف نے بھی اشارے داغ دئیے ہیں کہ فاٹا کو فوری طور پر کے پی کے میں ضم نہیں کیا گیا تو تحریک انصاف ان کے حق میں تحریک چلائے گی اور اسلام آباد میں دھرنا دے گی۔
مسلم لیگ ن اوراس کی دواتحادی جماعتیں جمعیت علمائے اسلام اور پختوان خوا ملی عوامی پارٹی اس مطالبہ کی مخالفت کر رہی ہیں ،ان تینوں پارٹیوں کا موقف واضح نہیں ہے ۔شایدجمعیت اور پختون خوا کے سیاسی مفادات فاٹا کو کے پی کے میں ضم کرنے کی صورت میں میل نہیں کھاتے ۔
کے پی کے کی آبادی اورسیٹوں میں اضافے کے ساتھ جمعیت کے حکومت سازی کے امکانات محدود ہو جائیں گے۔فاٹا کے ووٹ بنک پر اے این پی اور دوسری پارٹیوں کا اثر معلوم ہوتا ہے جبکہ ان دونوں پختون پارٹیوں کا اثر ورسوخ نہ ہونے کے برابر ہے شاید سیاسی مخالفت کی وجہ بھی یہی ہے۔
اے این پی کے صوبائی صدر اصغر اچکزئی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ حکومت کی قائم کردہ کمیشن کی رائے یہ تھی کہ فاٹاکی 90فیصد آبادی کے پی کے میں شمولیت چاہتی ہے۔ پہلے تو حکومت اس بات کی تیاری کررہی تھی کہ آہستہ آہستہ فاٹا کو مختلف مراحل میں کے پی کے میں ضم کیا جائے گا لیکن مقتدرہ نے اس عمل کو ویٹو کر دیا۔
ایک وفاقی وزیر نے فاٹا کے نمائندہ وفد کو بتایا کہ اب یہ انضمام نہیں ہوسکتا کیونکہ ملک کی مقتدرہ اس کی مخالفت کررہی ہے۔ ہماری رائے یہ ہے کہ حکومت عوام اور سیاسی پارٹیوں کی رائے کو اہمیت اور اولیت دے اور فاٹا کو کے پی کے میں ضم کرنے کافوری قدم اُٹھائے ۔
مقتدرہ کی رائے نہ صرف پس پشت ڈالا جائے بلکہ ان کو اس بات پر راضی کیا جائے کہ عوامی رائے کا احترام ضروری ہے ورنہ عوام اورحکومت کے درمیان اس مسئلہ پر تصادم کا اندیشہ ہے ۔اور ہمارا یہ بھی مطالبہ ہے کہ بلوچستان کے پختون علاقوں کو بھی کے پی کے میں ضم کیا جائے کیونکہ یہ افغانستان کے مفتوحہ علاقے ہیں ، انگریز سامراج نے افغانستان پر حملہ کرکے ان علاقوں کو ہتھیالیاتھا اور اپنی سلطنت میں شامل کیاتھا ۔
ویسے بھی بلوچ عوام نے ان علاقوں پر کبھی بھی اپنا دعویٰ نہیں کیا اور یہ تسلیم کیا کہ یہ علاقے بلوچ سرزمین کا حصہ نہیں ہیں اس لئے ان کو فوری طورپر فاٹا یا کے پی کے میں ملایا جائے ۔
چونکہ یہ بلوچ تاریخی سرزمین کا حصہ نہیں ہیں ان کو وفاقی پارلیمان میں بلوچ سرزمین کی نمائندگی کا حق نہیں ہے وفاقی حکومت ا ن کا حصہ بلوچستان سے الگ کرے اور بجٹ میں بھی ان کا حصہ الگ کرے ۔
جتنی جلد ان معاملات کا فیصلہ ہوگا یہ اتنا ہی پاکستان اور اس کے عوام کے مفاد میں ہوگا ۔ یہ ضروری ہے کہ وفاق میں بلوچ تاریخی سرزمین کی نمائندگی اس کے اپنے نمائندے کریں جن میں بلوچستان میں رہنے والے تمام ثقافتی اقلیتی شامل ہیں۔
اس لئے پاکستان کے عوام کو چائیے کہ متحدہ پختون صوبے کے مطالبہ کی حمایت کریں اوروفاقی حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ پختون تشخص کی خاطر ایک متحدہ پختون صوبہ تشکیل دے اور بلوچستان کے پختون علاقوں کو بھی ان میں بلاتاخیر شامل کرے ۔