کوئٹہ شہر کے مضافات سریاب میں لاکھوں کی تعداد میں افراد بستے ہیں۔ یہ علاقہ صوبائی سیاست کا ایک بہت بڑا مرکز ہے بلکہ یہ مزاحمتی سیاست کی علامت کے طورپر جانا جاتا ہے۔ جمہوریت اور صوبے کی بحالی میں یہاں کے لوگوں کا زبردست کردار رہاہے ۔ ون یونٹ کے خاتمے کے بعدبلوچستان کوصوبائی درجہ دلانے میں ان علاقوں کے باسیوں نے زبردست کردارادا کیا ۔
اس لیے یہ علاقہ متعصب افسران کے نشانے پر ہمیشہ رہاہے اور آج بھی یہ روش برقرار ہے ۔ متعصب افسران اتنے طاقتور تھے اور ہیں کہ یہاں کے رہنے والے چھ سے زائد وزرائے اعلیٰ اور گورنر اس علاقے کی ترقی کے لئے کچھ نہ کر سکے ۔موجودہ حکومت سے بھی عوام کو کچھ زیادہ توقعات نہیں ہیں۔
یہاں بھی سارا زور صرف اور صرف لفاظی تک ہے اورابھی تک ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے کہ حکومت واقعی سریاب کے مکینوں کو جدید دور کی تمام شہری سہولیات کی فراہمی کا منصوبہ رکھتا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل روزنامہ آزادی میں ایک اداریہ چھپنے کے بعد وزیراعلیٰ نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کیا جس میں منصوبہ بندی اور ترقیات کے اعلیٰ ترین افسران شریک تھے ۔
اجلاس میں وزیراعلیٰ نے احکامات دئیے کہ منصوبہ بندی کی جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ سریاب کے مکینوں کو جلد سے جلد تمام اور جدید شہری سہولیات فراہم کی جائیں ۔ لیکن تا حال ان احکامات پر تعمیل کے اطلاعات نہیں ہیں شاید افسران اعلیٰ و بالا کی نیت اس پر عمل درآمد کرنے کی نہیں۔
وزیراعلیٰ کو چائیے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے احکامات پر عمل ہوگا ۔ احکامات دینے کے بعد وزیراعلیٰ صاحب بھول جاتے ہیں اور دوسری طرف بعض افسران ان کا مذاق بناتے ہیں کہ کام ہمیں کرنا ہے ہم ریاست کے مستقل ملازم ہیں وزرائے اعلیٰ آتے جاتے رہتے ہیں ۔ ان کی کوئی ادا پسند آئی تو ان کے احکامات پر عمل درآمد ہوگا ورنہ نہیں ۔
اس لیے اس کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں کہ موجودہ حالات میں سریاب کے مکینوں کو جدید دور کی شہر ی سہولیات میسر ہوں گی تاہم اس بات کا قوی امکان ہے کہ سریاب کے رہائشی تمام سابق وزرائے اعلیٰ اور گورنر اس حوالے سے حکومت اور انتظامیہ پر دباؤڈالیں کہ یہاں کے مکینوں کو تمام جدید شہری سہولیات فراہم کی جائیں ۔
اس سلسلے میں بعض عناصر ایک فورم بنانے کے لئے سرگرم ہیں جس میں ان سابق وزرائے اعلیٰ کو شامل کیاجائے گا ۔ سریاب منصوبے میں اہم ترین حصہ جدید سیوریج نظام کا ہے ۔ ہزار گنجی سے ایوان قلات تک ایک گرانڈ ٹرنک لائن بچھائی جائے جو آبادی کے تمام حصوں کی ضروریات کو پورا کرے ۔
اس سیوریج کے پانی کو صاف کرکے باغات اور سڑکوں پر درخت لگانے میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔اس کے علاوہ یہ فلٹر شدہ پانی صفائی اور دھلائی کے کام میں بھی استعمال ہوسکتا ہے ۔ جب سے کوئٹہ انتظامیہ پر کرپٹ اور بد نیت افسران کا قبضہ ہوا ہے اس وقت سے شہرمیں صفائی کی صورتحال زیادہ خراب ہو ئی ہے ۔
ماحولیات کو تباہ کر دیاگیا ہے، ہر کہیں ٹریفک جام ہے کیونکہ گٹر ابل پڑ تے ہیں اور ٹریفک سست روی کا شکار ہوجاتاہے ۔ دوسری جانب کرپٹ انتظامیہ کی کوشش ہے کہ کنکریٹ کے جنگل میں اضافہ کیا جائے یعنی یہاں مزید پلازے بنائے جائیں اور خوب کمیشن کمایا جائے ۔ کوئٹہ جو ایک صحت افزا شہر تھا آج اس میں آلودگی کی سطح اتنی بڑھ گئی ہے کہ یہ رہنے کے قابل نہیں رہا ۔ لوگ مختلف بیماریوں میں صرف آلودگی کی وجہ سے مبتلا ہیں۔
ہمارے شہر کے قائدین کو شہر میں قمقمے لگانے کا زیادہ شوق ہے ابلتے گٹر اور بند نالے اور ان کی صفائی کا کوئی خیال نہیں ۔ اس سے زیادہ ضروری ہے کہ کوئٹہ کو پہلے آلودگی سے پاک بنایا جائے ،شہر کے ہر خاص مقام پر درخت لگائے جائیں، شہر کے وسط میں ہر طرح کے پلازوں کی تعمیر پر پابندی لگائی جائے ۔ سرکاری دولت اور وسائل صرف اور صرف آلودگی کم کرنے پر خرچ کیے جائیں نہ کہ اس سے پلازے بنائے جائیں ۔