|

وقتِ اشاعت :   October 17 – 2017

 کراچی: پولیس نے کہا ہے کہ خواتین پر چاقو سے حملوں کے مرکزی ملزم وسیم کے شہر قائد آنے کا کوئی ثبوت ہی نہیں ملا۔

شہر قائد میں خواتین پر حملوں کا پراسرار معاملہ ایسی گتھی بن گیا ہے جو کسی طور سلجھنے میں نہیں آرہا۔ پولیس نے حملوں پر ساہیوال کے رہائشی وسیم کو مورد الزام ٹھہرایا تھا جسے سخت تگ و دو کے بعد گرفتار کیا گیا تاہم اب ڈی آئی جی سلطان خواجہ نے کہا ہے کہ وسیم کے کراچی آنے کے شواہد نہیں ملے۔

معاملے پر ایم کیو ایم کی سینیٹر نسرین جلیل کی زیرصدارت سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں سینیٹر فرحت اللہ بابر، چیف سیکریٹری سندھ، سیکریٹری داخلہ سندھ، پولیس و رینجرز حکام نے شرکت کی۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی مشتاق مہر اور ڈی آئی جی سلطان خواجہ نے شرکا کو بریفنگ دی جس کے دوران پولیس حکام نے چھرا مار واقعات کے متعلق اہم انکشافات کیے۔

ڈی آئی جی سلطان خواجہ نے بتایا کہ تیز دھارآلے سے حملے کے تیرہ واقعات میں مماثلت ہے، وسیم کے زیر استعمال 16 سمز کا ڈیٹا لیا گیا تاہم پتہ چلا کہ ایک بھی سم سے نا تو کراچی میں کال کی گئی اور نا ہی وصول ہوئی، وسیم کے کراچی آنے کے شواہد نہیں ملے اس لیے وہ رہا ہوسکتا ہے، اگر وسیم بے گناہ ہوا تو چھوڑ دیں گے۔

حملہ آور کو پکڑنے کی کوششوں پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈی آئی جی سلطان خواجہ نے بتایا کہ  قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 38 مشتبہ ملزمان گرفتار کیے، 200 موبائل نمبرز کا ڈیٹا چیک کیا، 15 ہزار کالز کو ٹریس کیا گیا، تین نفسیاتی اسپتالوں سے مریضوں کا ڈیٹا لے لیا گیا، بدقسمتی سے کراچی میں سی سی ٹی وی کیمرہ کا نظام ہی نہیں۔

ایڈیشنل آئی جی کراچی مشتاق مہر نے بتایا کہ خواتین پر حملوں کو میڈیا نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا، حملوں کے الزام میں ماضی کے عسکری ونگز کے کارندوں کو بھی گرفتار کیا گیا، تیس چالیس ذہنی مریضوں سے تفتیش کی گئی ، چالیس چھوٹے کرمنلز کو پکڑا،۔

پولیس چیف مشتاق مہر نے کہا کہ کراچی میں پہلے سیریل کلنگ ہوتی تھی، 2016 میں پولیس اور آرمی کے 75 جوان ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے، یہ تمام ٹارگٹ کلنگ صرف دو دہشت گردوں نے کی، انصارالشریعہ نے بھی مجموعی طور پر 25 افراد کو ٹارگٹ کرکے مارا اور ان واقعات میں بھی دو ہی ملزمان ملوث تھے۔