حکومت اور اس کے بعض اتحادی اس بات پر بضد نظر آتے ہیں کہ فاٹا کو No man’s landہی رہنے دیاجائے کیونکہ یہ مقتدرہ کا فیصلہ ہے اور اس پر ہر حال میں عمل درآمد کرناہے۔
ہونا تو یہ چائیے تھا کہ فاٹا کو ابتداء سے ہی پاکستان میں شامل کیا جاتا تاکہ وہاں کے لوگوں کو بھی وہ تمام بنیادی انسانی حقوق ملتے جو پاکستان کے باشندوں کو دوسرے علاقوں میں حاصل ہیں۔
خان عبدالغفار خان کی سابق نیشنل پارٹی کی بنیادی دستاویزات میں یہ مطالبہ کیا گیا تھاکہ صوبوں کی تشکیل نو زبان اور قومیت کی بنیاد پر ہونا چائیے جس میں واضح طورپر فاٹا کو سابقہ صوبہ سرحد میں ضم کرنے کا مطالبہ شامل تھا ۔ یہ مطالبہ 1950ء کے اوائل میں کیا گیا تھا اورابھی تک یہ مطالبہ برقرار ہے ۔
حال ہی میں تمام قابل ذکر سیاسی پارٹیوں نے اسلام آباد میں احتجاج کرتے ہوئے یہی مطالبہ کیا تھا کہ فاٹا کو کے پی کے میں ضم کیاجائے ،اس سے قبل فاٹا کے نمائندے بھی متفقہ طورپر یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت کے قائم کردہ اعلیٰ اختیاراتی کمیشن نے یہ تجویز دی کہ فاٹا کو کے پی کے میں ضم کیاجائے اور بتدریج ضم کیاجائے لیکن نا معلوم وجوہات کی بناء پر مقتدرہ نے اس کو ویٹو کردیا ۔
مرکزی وزیر نے فاٹا کے نمائندوں کے ساتھ ایک اجلاس میں صاف صاف بتا دیا کہ مقتدرہ اس انضمام کی مخالف ہے اس لیے اب یہ انضمام نہیں ہوسکتا ، حالانکہ یہ بنیادی فیصلہ اعلیٰ اختیاراتی حکومتی کمیشن نے کیا تھا۔
اس کے بعد مسلم لیگ کی حکومت اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گئی اور اب اس کی مخالفت پر اتر آئی ہے۔
کے پی کے میں فاٹا کے انضمام کے معنی یہ ہیں کہ وہاں کے عوام کو ووٹ کا حق ملے گا ، صوبائی اسمبلی میں نمائندگی ملے گی اور وہاں کے نمائندے حکومت سازی اورقانون سازی میں اہم کردا رادا کر سکیں گے ۔ وہاں پولیٹیکل افسر کا راج گزشتہ ایک صدی سے قائم ہے ۔
ایف سی آر جیسے کالے قوانین کے تحت ان پر حکومت کی جارہی ہے اور عوام اپنے بنیادی حقو ق سے محروم ہیں ۔ادھر حکومت اور مقتدرہ کی حمایت میں مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی کھل کر سامنے آئے ہیں اور حکومت کو سیاسی حمایت فراہم کررہے ہیں ۔
تمام سیاسی پارٹیوں کی جانب سے اسلام آباد میں کامیاب احتجاج سے حکومت کی ساکھ کو زبردست نقصان پہنچاکہ عوامی نمائندہ حکومت فاٹا کے عوام کو ووٹ دینے اور حکومت سازی کا حق دینے کو تیا رنہیں ہے ۔
چونکہ مسلم لیگ ایک غیر سیاسی جماعت ہے اور اس کا عوام الناس سے کوئی تعلق نہیں ،وہ اس قسم کے احتجاج کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی اس لیے یہ کام مولانا فضل الرحمان نے اسٹیڈیم کے تالے توڑ کر کیا اور ریفرنڈم کا نیا ڈرامہ رچایا تاکہ انضمام کا فیصلہ زیادہ مشکلات کا شکار ہو ۔
فاٹا کی اتنی بڑی آبادی کی کے پی کے میں شمولیت کے بعد جمعیت کی سیاسی اہمیت کم سے کم تر ہوجائے گی اور اسے چند سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑے گا ۔
لہذا جمعیت اور مولانا کی مخالفت توسمجھ میں آتی ہے لیکن پاکستان کے ایک بڑے جمہوریت کے دعوے دار محمود خان اچکزئی بھی اس کی مخالفت اس لیے کررہے ہیں کہ دوسرے مرحلے میں بلوچستان میں شامل افغانستان کے مفتوحہ علاقوں کو بھی ایک وسیع تر پشتون صوبہ میں ضم کرنا پڑے گا ۔
کیونکہ بلوچ ان علاقوں کو بلوچ سرزمین کا حصہ تسلیم نہیں کرتے اور اس بات کی حمایت کرتے ہیں کہ ان کو ایک وسیع تر پختون صوبہ میں ضم کیاجائے۔
اس طرح سے بلوچستان میں محمود خان کی سیاسی بادشاہت کا خاتمہ ہوجائے گا ۔
بلوچ ‘ پشتون کارڈ ان سے چھن جائے گا جو اس کے سیاسی نقصان کا سبب بنے گا ۔ محمود خان کسی بھی صورت میں متحدہ پختون صوبے کی حمایت نہیں کریں گے۔
موجودہ صورت حال میں وہ اپنے اتحادی مسلم لیگ اور مقتدرہ کی مدد کررہے ہیں اور مشکل وقت میں انکے کام آرہے ہیں ورنہ پاکستان کی تمام بڑی اور قابل ذکر پارٹیاں اس کے حق میں ہیں کہ فاٹا کو فوری طورپر کے پی کے میں ضم کیاجائے ۔