|

وقتِ اشاعت :   October 20 – 2017

کوئٹہ+ کراچی: بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ ،مرکزی کمیٹی کے رکن کراچی کے ڈویژن کے صدر حمید ساجنا بلوچ نے کراچی میں صحافیوں سے بات چیت کر تے ہوئے کہا ہے کہ بی این پی بلوچوں کی سب سے بڑی سیاسی قو می جماعت بن چکی ہے ۔

جو بلوچستان ، کراچی کے بلوچوں اور بلوچستانیوں کے حقوق کی ضامن سیاسی وقت ہے وقت کا تقاضا بھی ہی ہے کہ بی این پی کے قائد سردار اختر جان مینگل کی قیادت میں بلوچستان کے جملہ مسائل کے لئے جدوجہد کو تیز کی جائے ۔

انہوں نے کہا ہے کہ بی این پی سی پیک سمیت کسی بھی حقیقی ترقی وخوشحالی کی مخالفت نہیں کرتی لیکن یہ امر بھی لازمی ہے کہ گوادر جو سی پیک کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے لیکن آج اکیسویں صد ی میں گوادر کے غیور بلوچ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر نہ ہونے کی برابر ہے ۔

پارٹی اس حوالے سے اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد کروائی جو تمام پارٹیوں ان قراردادوں کو منظور کر تے ہوئے مشترکہ طور پر منظور کیا ان میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ گوادر پورٹ کی اختیارات بلوچستان کو دی جائے وہاں عوام کو فوری طور پر انسانی بنیادی ضروریات کوممکن بنایا جائے ۔

بلوچ اپنے تاریخی سرزمین میں کئی اقلیت میں تبدیل نہ ہو اس حوالے سے اس بات کی پابندی کی جائے کہ دیگر علاقوں کے لوگ شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور انتخابی فہرستوں میں ان کی معاونت ہو نی چا ہئے بلوچستان کے گوادر ماہی گیر جو ہزاروں سالوں ما ہی گیری کی صنعت سے وابستہ ہے ،ان کیلئے جی ٹی کی قیام کو ضروری بنایا جائے ۔

انہوں نے کہا ہے کہ جو خدشات اور تحفظات ہے اس کو دور کی جائے ایسا نہ ہو کہ سی پیک بلوچستان میں بن رہی ہے اور تمام فنڈز پنجاب کے علاقوں کے لئے استعمال ہو اور وہاں ترقی دی جار ہے ہیں ۔

انہوں نے کہا ہے کہ فوری طور پر اس حوالے سے ہمارے خدشات اور تحفظات دور کی جائے تاکہ ہمیں محسوس ہو کہ واقعی یہ ترقی بلوچ اور بلوچستانیوں کے لئے ہور ہی ہے ۔

انہوں نے کہا ہے کہ آج پارٹی کو کراچی میں بھی جو پذیرائی حاصل ہور ہی ہے بلوچوں کو یقین ہو چکی کہ بی این پی ہمارے مسائل کو حل کرنے کیلئے عملی طورپر کوشاں ہے ۔

اس سے قبل2013 میں پارٹی کے مینڈیٹ پر شب خون مارا گیا لیکن اس دور کے حکمران اس خام خیالی میں تھے کہ شاہد دن کے اجالے اور رات کی تاریکی میں مینڈیٹ کو چھرانے کے وہ اس خیام خیالی میں تھے وہ پارٹی کو دیوار سے لگائیں گے انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ۔