آئے دن حکمران یہ اعلانات کرتے نہیں تھکتے کہ فلاں جگہ اور فلاں منصوبے پر اتنی رقم خرچ کی جائے گی اور اتنی ہزار ملازمتیں فراہم کی جائیں گی ۔اس حوالے سے اکثر بڑے بڑے اعلانات اخبارات کی زینت بنتی ہیں ۔
الیکٹرانک میڈیا نے تو پورے بلوچستان اور حکومت سمیت سب کا بلیک آؤٹ کیا ہوا ہے ، صرف تباہی ،بربادی اور ہلاکتوں کی خبروں کو اچھالا جاتا ہے اور دنیا بھر میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ انسانی اقدار نام کی کوئی چیز بلوچستان میں موجود نہیں ہے ۔
گزشتہ دو سالوں سے حکومت یہ اعلان کرتی پھررہی ہے کہ 35ہزار ملازمتیں خالی ہیں جونو جوانوں کو فراہم کی جائیں گی جبکہ ابھی تک مختلف سرکاری محکموں یا مقامی حکومت کے اداروں نے صرف چند ہزار ملازمتیں فراہم کی ہیں ۔
اس میں بھی عوامی شکایات سامنے آئیں کہ من پسند رشتہ داروں اور سیاسی حمایتیوں کو روزگار دیا گیا، میرٹ پامال ہوا بلکہ بلوچستان کا دیرینہ اور روایتی ضلعی میرٹ کو متعصب حکمرانوں نے تباہ کردیا ۔
یہ نظام ون یونٹ کے دور سے چلا آرہا تھا کہ ضلع سے بہترین اور قابل ترین فردکو داخلہ اور ملازمت کے لئے منتخب کیاجاتا تھا مگر متعصب حکمرانوں نے اس روایتی میرٹ کے نظام کو پامال کیا اور پورے بلوچستان پر کوئٹہ شہر کی حکمرانی مسلط کرنے کی کوشش کی ۔
آئی ٹی یونیورسٹی نے بھی نفرت کے بیج بوئے اور کم ترقی یافتہ علاقوں کے طلباء کو داخلہ دینے سے انکار کیا ، اور اس کو صرف کوئٹہ کے شہریوں کی یونیورسٹی بنا دی ،ا سطرح سے بلوچستان کی اکثریتی آبادی کے خلاف اپنے تعصب اور نفرت کا اظہار کیا۔
ہم نے یہ مشورہ دیا تھا کہ آئی ٹی یونیورسٹی کو خضدار یا تربت منتقل کیاجائے جو بلوچستان کے دوسرے اور تیسرے بڑے شہر ہیں جن کا بلوچستان کے وسائل پر اتنا ہی حق ہے جتنا کہ صوبائی دارالحکومت میں رہنے والوں کا ۔
بہرحال دوردراز علاقوں میں رہنے والوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا ہے ، میرٹ کے نام پر ان پر روزگار کے دروزاے بند کردئیے گئے ہیں ۔
طاقتور افراد اثر ورسوخ استعمال کرکے اپنے مخصوص لوگوں کے لئے روزگار حاصل کرتے ہیں اور زیادہ محتاج اور ضرورت مند محروم کردئیے جاتے ہیں ۔گزشتہ دنوں اسمبلی کے فلور پر ایک رکن نے انکشاف کیا تھا کہ ایک محکمہ میں ملازمتیں لاٹری کے ذریعے تقسیم کی گئیں ۔
روزگار کے ذرائع اور پوسٹ فروخت کرنے پر دو سابق وزراء کو عدالت سے سزائیں بھی ہوئیں لیکن طاقتور اتحادی اپنے ان وزراء کو جیل سے چھڑاکر لے گئے ،اس شرط پرکہ ہم حکومت سازی میں اس وقت تک مسلم لیگ کے وزیراعلیٰ کو ووٹ نہیں دیں گے جب تک سزا یافتہ وزراء جیل سے رہا نہیں ہوتے۔
یہ ایک معمول کی بات بن گئی ہے کہ بلوچستان میں خالی اسامیاں فروخت ہوتی ہیں اور حکمران اپنے رشتہ داروں یا سیاسی حمایتیوں کو نوکریاں دیتے ہیں ۔
بعض جگہ اکثر اثر ورسوخ استعمال کرکے مقابلے کے امتحانات میں پاس ہونے والوں کو بھی منتخب نہیں کیا جاتا ۔ ان تمام مسائل کا واحد حل بلوچستان کی معاشی ترقی ہے ۔ بعض حکمران ترقی سے یہ مراد لیتے ہیں کہ وفاق سے زیادہ سے زیادہ فنڈ حاصل کیا جائے تاکہ ان کا حصہ اور زیادہ ہو ۔
معاشی ترقی کا اصل مقصد حکومت اور عوام کے ذرائع آمدن میں اضافہ ہے اور لوگوں کو روزگار فراہم کرنا ہے ۔ جہاں جہاں حکمرانوں کو ذاتی آمدنی کی توقع نہیں ہوتی ان منصوبوں میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں ہوتی خواہ وہ کتنا بڑا معاشی ترقی کا منصوبہ ہو۔ کچھی کینال اس کی واضح مثال ہے کہ وفاق نے یہ منصوبہ بگٹی سرزمین پر ختم کردیا بلوچستان کی پوری حکومت اوراس کی تمام اتحادی پارٹیوں نے اس کو نظر انداز کردیا جیسا کہ کچھ ہوا ہی نہیں ۔
دوسرے الفاظ میں بلوچستان کے اس عظیم منصوبے پر سو ارب روپے خرچ نہیں کیے جائینگے۔ کسی کو پرواہ نہیں، کوئی بھی سرکاری اتحادی وفاق کو ناراض کرنا نہیں چاہتا اس لیے کہ بعض حکمرانوں کو اس سے کسی آمدنی ‘ جائز یا ناجائز کی توقع نہیں ۔
حالانکہ کینال کا بقیہ حصہ 640,000ایکڑ زمین آباد کرے گی،لاکھوں افراد کو روزگار فراہم ہو گا، نئے شہر آباد ہوں گے، نئی منڈیاں بنیں گی جہاں پر اربوں روپے کی تجارت ہوگی ۔ ’’چونکہ مجھے کچھ ملنے کی توقع نہیں اس لیے سب جائے بھاڑ میں ‘‘یہی حکمران اتحادی پارٹیوں کا رویہ ہے ۔