|

وقتِ اشاعت :   October 23 – 2017

آج کل افغانستان کو ایک خوفناک صورت حال کا سامنا ہے۔ آئے دن فوج پر حملے ہورہے ہیں، مساجد بھی محفوظ نہیں، روزانہ سینکڑوں افراد ، فوجی اور جنگجوہلاک ہورہے ہیں۔ افغان خانہ جنگی میں بہت زیادہ تیزی آگئی ہے، کابل ، قندھار اور دوسرے اہم ترین شہر محفوظ نہیں رہے ۔

طالبان کی جب مرضی ہوتی ہے کابل کے زیادہ سیکورٹی زون والے علاقوں پر حملے کرتے ہیں اور یہ حملے سینکڑوں ہلاکتوں کا موجب بن رہے ہیں ۔افغانستان کی سیکورٹی کی صورت حال خطے کی سیکورٹی کی غمازی کرتی ہے جس کے براہ راست اثرات پاکستان پر پڑ سکتے ہیں ۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے اور کل ہی افغان سفیر اور فوج کے سربراہ کے درمیان ملاقات ہوئی جس میں افغانستان بلکہ پورے خطے کا امن زیر بحث آیا ہوگا ۔ ابھی تک یہ معلوم نہ ہو سکا کہ افغان خانہ جنگی میں تیزی کی وجوہات کیا ہیں۔

کس قسم کی اشتعال انگیزیاں حالیہ دور میں ہوئیں البتہ ایک بات واضح ہوگئی کہ افغان اور امریکی افواج نے اپنی ہوائی قوت کا بھرپور مظاہرہ کیا اور طالبان اور دوسرے جنگجوؤں کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ۔شاید طالبان اور داعش کا انہی کارروائیوں کے خلاف ایک بھرپور رد عمل ہوا۔ افغان فوج اور عوام پر حالیہ دہشت گردانہ حملے انتہائی خوفناک تھے جن میں سینکڑوں فوجی اور عام شہری ہلاک ہوئے۔

یہ حملے اس وقت ہوئے جب بین الاقوامی برادری اس کوشش میں ہے کہ افغان مسئلے کا کوئی آبرو مندانہ حل نکل آئے شاید اسی سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ پورے خطے کا دورہ کررہے ہیں جن میں بھارت کے علاوہ گلف ممالک بھی شامل ہیں ؟ شاید وہ پورے خطے میں موجود ہ حالات کا تجزیہ کرنا چاہتے ہیں ۔

وہ پاکستان بھی آئیں گے او رپاکستانی رہنماؤں سے غالباً بھارت ، کشمیر ، افغانستان ، ایران اور گلف کے مسائل پر بھی بات کریں گے۔ ان کا دورہ ایران ، افغانستان ، بھارت اور پاکستان کے لئے اہم ترین ہوگا جس کی بنیاد پر امریکا میں فیصلے ہوں گے ۔

تاہم افغان خانہ جنگی کو خصوصی اہمیت حاصل رہے گی اور امریکا پاکستان سے مزید تعاون حاصل کرنے کی کوشش کرے گا تاکہ افغانستان سے طالبان ، داعش اور القاعدہ جیسے دہشت گرد تنظیموں کا خاتمہ جلد سے جلد ہو سکے ۔

اس لیے امریکی صدر نے یہ اعلان کیا ہے کہ ان کا افغانستان سے انخلاء کا کوئی ارادہ نہیں بلکہ امریکا لا محدود مدت کے لئے افغانستان میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ موجود رہے گا چنانچہ امریکی وزیر خارجہ کی آمد کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔

ادھر افغان مقتدرہ اور حکومتی افراد نے پاکستان پر الزامات لگانے کچھ کم کردئیے ہیں شاید وہ کسی اہم امریکی فیصلے کا انتظار کررہے ہیں جس کا تعلق افغانستان یا خطے کے اہم ترین ممالک سے ہوگا۔

ایک اہم ترین مسئلہ ایران کا بھی ہے امریکا اور ایران دونوں تصادم کی راہ پر چل رہے ہیں دونوں کے درمیان کشیدگی میں روز بروز اضافہ ہورہاہے گلف میں ایک بہت بڑے امریکی بحری بیڑے کی موجودگی میں جنگ کے خطرات بڑھتے جارہے ہیں ۔

بلکہ کشیدگی میں اس حد تک اضافہ ہوا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تصادم کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ تاہم تلخ بیانی کے باوجود امریکا نے ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں نہیں لگائیں لیکن بین الاقوامی سمندر میں دونوں ممالک کا آمنا سامنا ہے جو کسی وقت بھی خطرناک شکل اختیار کرسکتا ہے ۔

ایران کو امریکی افواج کی افغانستان میں موجودگی پر تشویش ہے اس لیے امریکا ایران کو دشمن نہیں تو ایک مخالف ملک ضرور سمجھتا ہے اور افغانستان میں اس کی موجودگی کو پسند نہیں کرتا۔

امید ہے کہ امریکی وزیر خارجہ کے دورے کے بعد خطے میں کشیدگی میں کمی ضرور ہوگی۔