کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی نے متفقہ قرارداد کے ذریعے مطالبہ کیا ہے کہ قومی اسمبلی میں بلوچستان کی نشستیں بڑھا کر صوبے کو مرکزی سطح پر فیصلہ سازی میں کردار دیا جائے۔
ارکان اسمبلی نے بلوچستان اور ملک کی اہم اور نمائندہ سیاسی جماعتوں کو کوریج نہ دینے پر ذرائع ابلاغ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا ہے کہ آئین کی بالادستی اور صحافت کی آزادی کیلئے جدوجہد کرنیوالی جماعتوں کو نظر انداز کرکے پیسے دینے والی جماعتوں کو اہمیت دی جارہی ہے۔
بلوچستان اسمبلی کا اجلاس بیس منٹ کی تاخیر سے سپیکر راحیلہ حمید درانی کی صدارت میں شروع ہوا ۔ اجلاس میں صوبائی وزیر صحت کی عدم موجودگی کے باعث اسپیکر نے مسلم لیگ(ن) کے پرنس احمد علی کا توجہ دلاؤ نوٹس آئندہ اجلاس کے لئے مؤخر کرنے کی رولنگ دی ۔
اجلاس میں وزیراعلیٰ کے مشیر سردار در محمد ناصر نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ مردم شماری 2017ء کے نتائج کے مطابق ملک میں مردم شماری کی شرح تقریبا بیس فیصد اضافہ ہوا ہے جسکی بناء پر قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کرنا وقت کا تقاضہ ہے لیکن تاحال اس سلسلے میں کوئی پیشرفت عمل میں نہیں لائی گئی ہے ۔
قرار داد میں صوبائی حکومت سے سفارش کی گئی کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ مردم شماری کی شرح میں اضافہ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں اضافے کو یقینی بنائے تاکہ عوام کو اپنی دہلیز پر اپنے مسائل حل کرنے میں مدد مل سکے ۔
قرار داد پر اظہار خیال کرتے ہوئے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ یہ ایک اہم قرار داد ہے یہ وقت ہے کہ ہم اپنے صوبے کی نشستوں میں اضافہ کرائیں کیونکہ قومی اسمبلی میں جہاں فیصلے ہوتے ہیں وہاں ہماری نشستیں کم ہونے سے ہماری آواز نہیں سنی جاتی وفاق میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان اس مسئلے پر مذاکرات کے لئے بیٹھ رہی ہیں ۔
ہمیں اس قرار داد کو منظور کرکے ارکان کی رائے سے ان کو آگاہ کرنا چاہئے اور اپنے ارکان قومی اسمبلی و سینٹ سے یہ کہیں کہ وہ اس سلسلے میں وہاں پر لابنگ کرکے ہماری نشستوں میں اضافہ کرائیں ۔شنید ہے کہ بلوچستان کے صرف ایک دو نشستیں بڑھائی جارہی ہیں وفاقی حکومت سے بات کرکے مناسب اضافہ کرایا جائے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے انجینئرزمرک خان نے کہا کہ یہ اہمیت کی حامل قرار داد ہے مردم شماری کے بعد حلقہ بندیاں ہورہی ہیں اگر اب نشستوں میں اضافہ نہیں ہوا تو ہمیں اگلی مردم شماری کا انتظار کرنا پڑے گا انہوں نے کہا کہ پنجاب میں ساڑھے تین لاکھ کی آبادی پر قومی اسمبلی کی ایک نشست دی گئی ہے ۔
پانچ لاکھ پر دوسری نشست مل جاتی ہے اگر اسی فارمولے کومد نظر رکھا جائے تو کوئٹہ کی کم از کم چار سے پانچ نشستیں ہونی چاہئیں سینٹ اور قومی اسمبلی میں ہمارے ارکان موجود ہیں وہ اس سلسلے میں لابنگ کریں اس مسئلے پر کوئی اے پی سی بلائی جائے ۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے کئی حلقے سینکڑوں کلو میٹرز پر پھیلے ہوئے ہیں ہماری آبادی کے ساتھ رقبے کو بھی شامل کیا جائے تاکہ عوام کے لئے زیادہ کام ہوسکے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے مجیدخان اچکزئی نے کہا کہ قرار داد اہم ہے مگر صورتحال یہ ہے کہ ہمارے صوبے میں بہت بڑی تعداد میں شناختی کارڈ بلاک ہیں ۔
مردم شماری کے دوران بھی بلاک شناختی کارڈوں کی وجہ سے ہماری بہت بڑی تعداد کا مردم شماری میں اندراج نہیں ہوسکا صرف میرا حلقہ اتنا بڑا ہے جو سینکڑوں کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے مگر اس کی آبادی صرف ساڑھے سات لاکھ ظاہر کی گئی ہے جو کسی طور پر درست نہیں مردم شماری درست نہیں ہوئی اس پہ ہمارے تحفظات ہیں ۔
ہمارے علاقوں میں مردم شماری صحیح نہیں ہوئی ہے ایک شناختی کارڈ بلاک ہونے کا مطلب اس پورے گھر کے تمام افراد کے نام مردم شماری میں شامل نہیں کئے گئے جتنی سختی ہمارے علاقوں میں مردم شماری میں کئی گئی اتنی کہیں پر نہیں کی گئی اگر ہمارے شناختی کارڈ بن جاتے اور مردم شماری میں ناموں کا اندراج ہوتا تو ہماری نشستیں بہت زیادہ بڑھتیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے کبھی بھی افغان مہاجرین کو شناختی کارڈ دینے کی بات نہیں کی ہاں جب تک افغانستان کے حالات معمول پر نہیںآ جاتے انہیں ورکنگ پرمٹ دیئے جائیں ۔
جمعیت علمائے اسلام کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ اگر اب نئی حلقہ بندیاں نہ ہوئیں اور حلقوں میں اضافہ نہ ہوا تو پھر ہمیں دس سے پندرہ سال تک یہ موقع نہیں ملے گا نشستیں بڑھنے سے بھی ہم اگرچہ پنجاب کے مقابلے میں نہیں آسکیں گے مگر ہماری کچھ آواز زیادہ ہوجائے گی ہماری نشستیں ساٹھ سے ستر ہوجائیں تو ہمارا موقف سنا جاسکے گا ۔
انہوں نے کہا کہ نادرا کا ہمارے ساتھ رویہ درست نہیں بائیس موبائل وین ہیں اور کسی ایک بھی حلقے کو اس کے لئے چار چار مہینوں کا انتظار کرنا پڑتاہے انہوں نے رائے دی کہ قرار داد کو پورے ایوان کی مشترکہ قرار داد میں تبدیل کیا جائے ۔
مسلم لیگ (ن) کے میر عاصم کرد گیلو نے کہا کہ ہماری کم از کم پچاس نشستیں قومی اسمبلی میں ہونی چاہئیں اگرایسا نہیں تو کم از کم ہر ضلع کی ایک نشست ہونی چاہئے انہوں نے بھی شناختی کارڈ کے حوالے سے تحفظات کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ پورے صوبے میں شناختی کارڈ کے اجراء کو یقینی بنایا جائے ۔
صوبائی وزیر ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہا کہ ہمارے صوبے میں مردم شماری درست نہیں ہوئی جب تک درست مردم شماری نہیں ہوگی اس وقت تک ہماری صحیح آبادی سامنے نہیں آئے گی دوسری جانب بلاک شناختی کارڈوں کا مسئلہ انتہائی اہم ہے اس مسئلے پر ہم نے اسلام آباد میں و فاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے بات کی انہوں نے کہا کہ کوئی ایک شرط پوری کرنے والوں کو یہ شناختی کارڈ جاری کئے جائیں گے مگر یہاں تو نادرا والوں نے پانچ پانچ شرائط رکھ دی ہیں ۔
دوسری جانب چوہدری نثار علی خان نے نادرا کو وسائل کی فراہمی کے حوالے سے بھی وعدے پورے نہیں کئے نادرا میں 86خواتین اہلکاروں کی آسامیاں خالی پڑی ہیں انہوں نے کہا کہ ہر ضلع کی ایک نشست ہونے کی بات درست نہیں کیونکہ کہیں آبادی بہت زیادہ اور کہیں بہت کم ہے ہمیں احتیاط سے کام لینا ہوگا اور غلطیوں سے بچتے ہوئے صوبے کے لئے بہتر سوچنا ہوگا ۔
صوبائی وزیر شیخ جعفرخان مندوخیل نے کہا کہ صوبے میں مردم شماری بھی درست نہیں ہوئی میرے حلقے میں سوفیصد مقامی قبائل ہیں مگر انہیں مردم شماری میں شامل نہیں کیا گیا جبکہ بعض جگہ پر جہاں افغان مہاجرین تھے وہاں مردم شماری میں انہیں شامل کیا گیا شناختی کارڈ جاری نہیں ہورہے ۔
اگر شناختی کارڈ جاری اور مردم شماری میں انہیں شامل نہیں کیا جائے گا تو ہماری نشستوں میں اضافہ نہیں ہوگا انہوں نے کہا کہ اس وقت پنجاب کے ایک ڈویژن کی نشستیں پورے بلوچستان کی نشستوں سے زیادہ ہیں قومی اسمبلی میں ہماری نمائندگی انتہائی کم ہے ۔
انہوں نے تجویز دی کہ سینٹ کے طرز پر قومی اسمبلی میں بھی صوبوں کو یکساں نمائندگی دی جائے ۔اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے بلوچستان کے ایوان کی اہمیت وفاق میں ڈسٹرکٹ کونسل کی طرح ہوتی جارہی ہے ہمارا ایوان میں آنے کا مقصد مسائل کا حل ہے لیکن منتخب ہونے کے بعد اراکین وقت پر آواز اٹھانے کی بجائے بعد میں مرکز اور اداروں سے گلہ کرتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ چار سال سے جو دعوے کئے گئے عملا ؒ ان کی نفی کی گئی ہے نیا این ایف سی ایوارڈ جاری نہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان کو نقصان ہورہا ہے پوری دنیا میں سی پیک کے چرچے ہیں مگر بلوچستان میں سی پیک کے تحت ایک اینٹ بھی نہیں لگی مگر ہمارے وزراء سیاسی قائدین گورنر سب لوگ کچھ لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے سی پیک پر بیانات دے رہے ہیں یہ بہت اہم وقت ہے ۔
اگر ہم نے اپنے حقوق کی حفاظت اور ان کے لئے آواز بلند نہیں کی تو مرکز اور اسلام آباد سے گلہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں پوری دنیا میں بلوچستان کی جگ ہنسائی ہورہی ہے کہ سارے صوبوں میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری ہورہی ہے مگر بلوچستان کو ایک پائی نہیں ملی سیندک پر جو معاہدا ہوا ہے ۔
اس کا کوئی حساب کتاب معلوم نہیں نہ اس کا طریقہ کار واضح کیا گیا ایک دن اجلاس بلا کر معاہدہ کرلیا گیا کسی سے بھی مشاورت نہیں کی گئی اس معاہدے سے بلوچستان کو کچھ حاصل نہیں ہوا ہم صوبے کے اثاثوں پر سیاست کرتے ہیں مگر جب ان پر اہم فیصلے ہوتے ہیں تو کسی کو بھی اعتماد میں نہیں لیا جاتا میں سردار در محمد ناصر کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے یہ قرار داد پیش کی ۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک ریکوڈک سیندک سمیت بلوچستان کے تمام اہم مسائل پر تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر مشاورت کرنے کی ضرورت ہے اور اس پر ایک مشترکہ فارمولہ تشکیل دینا چاہئے اگر ہم نے اتفاق وا تحاد سے کام نہ لیا تو ان قوتوں کی کامیابی ہوگی جو ہمیں محروم رکھنا چاہتی ہیں ۔
قومی اسمبلی کی نشستوں کو بڑھانے کے لئے بھی فارمولا طے کرنا چاہئے اگر رقبے نہیں تو ہر ڈسٹرکٹ کی بنیاد پر بلوچستان کو نمائندگی دی جائے میری سپیکر سے گزارش ہے کہ وہ ایک کمیٹی بنائیں تاکہ وہ مشاورت کرکے عملدرآمد کے کام کا بھی جائزہ لے ۔
مجلس وحدت المسلمین کے آغا رضا نے کہا کہ کوئٹہ میں چھ لاکھ سے زائد ہزارہ برادری کے افراد مقیم ہیں لیکن ان کا صرف ایک نمائندہ ہے اگر میرٹ کی بنیاد پر دیکھا جائے تو کوئٹہ میں بھی سیٹیں بڑھتی ہیں اگر صرف پی بی چھ کا جائزہ لیا جائے تو اس میں چار حلقے بن سکتے ہیں تمام سیاسی پارٹیوں کواس مسئلے پر مل کر جدوجہد کرنی چاہئے ۔
جمعیت العلماء اسلام کے مولوی معاذ اللہ نے کہا کہ بلوچستان کے ساتھ مرکز سے ناانصافی ہوتی ہے مردم شماری کے نتائج تسلی بخش نہیں ہیں اگر مردم شماری کی تعداد سے ہٹ کر بھی رقبے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو بلوچستان کی نشستیں بڑھنی چاہئیں اس مسئلے کے حل کے لئے پوری اسمبلی کو مل کر احتجاج کرنا چاہئے ۔
صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ قرار داد کی مکمل حمایت کرتا ہوں وفاق میں جو لوگ حلقہ بندیاں کریں گے ان سے صوبے کی تسلی نہیں ہوگی قومی اسمبلی میں جو لوگ بلوچستان کی نمائندگی کررہے ہیں ان کے ایک سوال کانمبر ایک سال کے بعد آتا ہے فیڈریشن میں اکائیوں اور فیڈریشن کے درمیان اختیارات کا جھگڑا رہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ پی ایس ڈی پی میں پانی کی مد میں تین ارب روپے رکھے گئے جبکہ وفاق کی جانب سے ساٹھ کروڑ روپے جاری کئے گئے اور باقی سکیمات کو موجودہ بجٹ میں نئی سکیمات کے طور پر ظاہر کیا گیا گزشتہ دس سال سے نعرہ لگارہے ہیں کہ لوگوں کے شناختی کارڈ بلاک ہیں ۔
مردم شماری میں لاکھوں لوگوں کا اندراج نہیں ہوسکا میری تجویز ہے کہ بلوچستان کے قومی اسمبلی کے اراکین اور پنجاب کے اراکین کے تناسب کو ایسے فارمولے کے تحت برابر کیا جائے کہ اگر بلوچستا ن کے اراکین کم بھی ہیں تو ان کی رائے کو اہمیت حاصل ہونی چاہئے ۔
سینٹ کے پاس مالی انتظامی و دیگر اختیارات نہیں ہیں دیگر ممالک میں سینٹ کی اہمیت کئی زیادہ ہے انہوں نے کہا کہ تمام پارٹیوں کو مل کر مسائل کے حل کے لئے فارمولا طے کرنا چاہئے اختلافات سے بالا تر ہو کر صوبے کے وسیع مفاد میں جدوجہد کرنی چاہئے یہی وقت ہے کہ ہم اپنے صوبے کی وفاق میں قومی اسمبلی میں نشستیں بڑھانے کے لئے جدوجہد کریں ۔
انہوں نے کہا کہ 2015ء کے بعد این ایف سی ایوارڈ طے نہیں ہوا اسے بھی طے ہونا چاہئے اگر ہم جمہوریت پہ یقین رکھتے ہیں تو جمہوریت کے تمام تقاضوں پر من و عن عمل کرنا ہوگا۔ صوبے اور مرکز دونوں میں جمہوری رویے کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جس کے بعد سپیکر راحیلہ حمیدخان درانی نے ایوان کی مشاورت سے قرار داد کو ایوان کی مشترکہ قرار داد کے طو رپر منظوری کے لئے پیش کیا جس کی ایوان نے متفقہ طو رپر منظوری دے دی ۔
اس موقع پر سپیکر نے مذکورہ قرار داد سے متعلق اپنی صدارت میں ایک پارلیمانی کمیٹی کے قیام کی رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ کمیٹی کے اراکین کے ناموں کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
اس سے قبل اجلاس میں مسلم لیگ(ن)کی انیتا عرفان نے ٹریفک سگنلز سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر داخلہ بتائیں کہ کیا یہ درست ہے کہ کوئٹہ شہر کی اہم شاہراہوں پر ٹریفک سگنلز کا کوئی نظام موجود نہیں جس کے باعث اکثر ٹریفک جام رہتا ہے جس کے باعث طلباء وطالبات اپنے تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمین اپنے دفاتر تاخیر سے پہنچتے ہیں اور مریض ہسپتالوں تک بروقت رسائی حاصل نہیں کرسکتے ۔
اگر مذکورہ بالا باتیں درست ہیں تو بتایا جائے کہ ٹریفک سگنلز کے قیام کے لئے حکومت کیا اقدامات اٹھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔اپنے توجہ دلاؤ نوٹس پر بات کرتے ہوئے انتیا عرفان نے کہا کہ ملک کے تمام بڑے شہروں میں ٹریفک سگنلز موجود ہیں اور جہاں نہ ہوں وہاں پر ٹریفک کا عملہ ضرور ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں نہ تو ٹریفک سگنلز ہیں اور نہ ہی رش والے علاقوں میں ٹریفک اہلکار ہوتے ہیں ۔
صوبائی وزیر شیخ جعفرخان مندوخیل نے کہا کہ آئے روز وی آئی پی آمدورفت کے نام پر ٹریفک بند کرنے سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہ سلسلہ ختم ہونا چاہئے ۔
نیشنل پارٹی کی ڈاکٹر شمع اسحاق نے کہا کہ وی آئی پی کلچر کی وجہ سے ٹریفک کا نظام متاثر ہورہا ہے ڈاکٹر شمع اسحاق کے بعض ریمارکس پر ان کے اور سردار عبدالرحمان کھیتران کے مابین سخت جملوں کا تبادلہ ہوا تاہم سپیکر نے تمام قابل اعتراض ریمارکس کارروائی سے حذف کرادیئے ۔
صوبائی وزیر داخلہ میرسرفراز بگٹی نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ کوئٹہ میں ٹریفک سگنلز کا نظام اس طرح نہیں جس طرح سے بڑے شہروں میں موجود ہے تاہم اس سلسلے میں اقدامات کئے جارہے ہیں کنسٹلنٹ سے بھی اس سلسلے میں رائے لی جائے گی کہ کہاں کہاں پر سگنلز لگائے جائیں جہاں تک سڑکیں بند کرنے کی بات ہے تو وی آئی پی شخصیات کی سیکورٹی کے لئے ہمیں ایسا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ماضی میں صرف جرائم ہوتے تھے مگر اب ہمیں دہشت گردی کا سامنا ہے ۔
اس لئے مجبورا بھی سڑکیں بند کی جاتی ہیں تاہم انہوں نے یقین دلایا کہ ٹریفک سگنلز کے حوالے سے جلد اقدامات کئے جائیں گے۔صوبائی وزیر کی یقین دہانی پر سپیکر نے توجہ دلاؤ نوٹس نمٹانے کی رولنگ دی ۔
اجلاس میں چیئر مین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی عبدالمجید خان نے توجہ دلاؤ نوٹس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر داخلہ بتائیں کہ کیا یہ درست ہے کہ عدالت عظمیٰ نے سیون اے ٹی اے کی دفعات ایف آئی میں اندراج کے بارے میں کوئی فیصلے صادر کئے ہیں تاہم لویئر کورٹس ان فیصلوں پر بعینہ عملدرآمد نہیں کررہے جس کے باعث ذمہ دار (ایس ایچ او اور رسالدار)ایف آئی آر درج کرتے وقت سیون اے ٹی اے لگانے میں احتیاط سے کام نہیں لے رہے ۔
نتیجتاًجن افراد پر ان دفعات کا بلا جواز نفاذ کیا جاتا ہے وہ سالوں سال سلاخوں کے پیچھے چلے جاتے ہیں جس سے نہ صرف وہ بلکہ ان کے خاندان بھی بری طرح متاثر ہوتے ہیں اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو کیا صوبائی حکومت سیون اے ٹی اے کے غلط ادراج کی روک تھام کے لئے کوئی طریقہ کار وضع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جاسکے اور مستقبل میں ان دفعات کے غلط استعمال کی روک تھام ممکن ہوسکے ۔
اس موقع پر سپیکر راحیلہ حمیدخان درانی نے کہا کہ صوبائی وزیر داخلہ سے اس سلسلے میں بات ہوئی ہے انہوں نے جواب کے لئے وقت مانگا ہے لہٰذا اس نوٹس کو بھی وزیر داخلہ کی جانب سے تیاری تک موخر کیا جاتا ہے ۔
اجلاس میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی رکن عارفہ صدیق نے محکمہ سماجی بہبود سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے معذور افراد کا مسودہ قانون مصدرہ 2017ء مسودہ قانون نمبر2مصدرہ20178جون2017ء سے نافذ العمل ہوچکا ہے ۔
مذکورہ ایکٹ کے چیپٹرتھری کے تحت صوبائی کونسل کے قیام کا نوٹفیکیشن ہونا تھا لیکن تاحال اب تک اس بارے میں کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھائے گئے جس کی وجہ سے بلوچستان معذور افراد میں بے چینی اور تشویش پائی جاتی ہے اگر یہ بات درست ہے تو تفصیل دی جائے کہ اب تک صوبائی کونسل کے قیام کا باقاعدہ نوٹیفکیشن کیوں جاری نہیں کیا گیا ۔
جس پر سپیکر نے کہا کہ متعلقہ وزارت وزیراعلیٰ کے پاس ہے تاہم اب یہ محکمے کا ایک انتظامی مسئلہ ہے انہوں نے سیکرٹری سماجی بہبود کو ہدایت کی کہ وہ اس حوالے سے تفصیلات جلد ایوان کے سامنے لائیں اور بتایا جائے کہ اب تک اس سلسلے میں کیا پیشرفت ہوئی ہے ۔
نیشنل پارٹی کی ڈاکٹر شمع اسحاق نے کہا کہ ہم نے مختلف بل تیار کرکے ایوان سے منظور کرائے مگر ان پر قانون سازی نہیں ہورہی جس پر سپیکر نے کہا کہ اس سلسلے میں ڈ اکٹر عبدالمالک بلوچ کی قیادت میں کمیٹی قائم ہے وہ اسے بھی دیکھے کہ اس سلسلے میں کیوں پیشرفت نہیں ہورہی بعدازاں سپیکرنے توجہ دلاؤنوٹس نمٹانے کی رولنگ دے دی ۔
اجلاس میں عوامی نیشنل پارٹی کے انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ جمعے کو ہماری جماعت کا پشین میں جلسہ ہوا جس میں مختلف اضلاع سے شرکت کے لئے قافلے شامل ہوئے ہرنائی سے بھی ہمارے دوست آرہے تھے تاہم ہمارے دوستوں کی ایک گاڑی میں دھماکہ ہوا جس سے عبدالرزاق اورعبدالخالق شہید ہوئے واقعے کی تحقیقات تو حکومت کرے گی تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے جلسے کو ناکام بنانے کی سازش تھی مگر ہم یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اے این پی باچاخان کا کاروان ہے ۔
جس نے سینکڑوں رہنماؤں اور کارکنوں کے جانوں کے نذرانے دیے ہیں اور دہشت گردی کے خاتمے اور وطن کے لئے ہماری جدوجہد جاری رہے گی ان کی استدعا پر سپیکر نے واقعے میں شہید ہونے والے عبدالرزاق اور عبدالخالق کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کرائی ۔
اجلاس میں عوامی نیشنل پارٹی کے انجینئرزمرک خان اچکزئی نے عوامی مفاد کے نکتے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ میں اس ایوان کے توسط سے الیکٹرانک میڈیا سے سخت احتجاج کرتا ہوں ہماری جماعت کے سربراہ اسفندیار ولی خان دو دن سے بلوچستان کے دورے پر ہیں جمعے کو پشین میں ہمارا بہت بڑا جلسہ ہوا مگر الیکٹرانک میڈیا کی جانب سے اس کی کوئی کوریج نہیں کی گئی جو افسوسناک ہے ۔
ٹی وی چینلوں کے ایک گھنٹے میں پینتیس منٹ تک تو صرف اشتہارات چلتے ہیں باقی پچیس منٹ میں ہمیں پچیس سیکنڈ کی بھی کوریج نہیں دی گئی ہمارے مقامی صحافی تو ہمارے ساتھ بہت تعاون کرتے ہیں مگر میڈیا ہاؤسز کے مالکان کا ہمارے ساتھ رویہ ناقابل برداشت ہے ۔
اس پر حکومتی و اپوزیشن ارکان کو بیٹھ کر لائحہ عمل طے کرنا چاہئے اور یہ دیکھنا چاہئے کہ الیکٹرانک میڈیا ہمیں کیوں کوریج نہیں دے رہااس مسئلے پر آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے یا پارلیمانی لیڈرز بیٹھ کر آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں ۔
انہوں نے کہا کہ یہ امر افسوسناک ہے کہ چند مخصوص جماعتیں جو میڈیا کو اشتہارات دیتی ہیں انہیں تو گھنٹوں گھنٹوں کوریج ملتی ہے ہم نے میڈیا کی آزادی کے لئے جدوجہد کی اور قربانیاں دی ہیں مگر ہمارے جلسوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے جبکہ عمران خان مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے پورے پورے جلسے براہ راست دکھائے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں الیکٹرانک میڈیا سے گلہ ہے تاہم پرنٹ میڈیا کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ پشتونخوا میپ کے مجیدخان اچکزئی نے کہا کہ میڈیا کی آزادی کے لئے تمام سیاسی جماعتوں نے جدوجہد کی مگر اخبارات میں سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں چھوٹے چھوٹے اتحادوں کی خبروں کو کوریج دی جاتی ہے جو سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں بنائی گئی ہیں اخبارات کو صوبائی حکومت بھاری اشتہارات دیتی ہے مگر سیاسی جماعتیں تو درکنار صوبائی اسمبلی کے اجلاسوں کو بھی کوریج نہیں دی جاتی ۔
میڈیا صرف بریکنگ نیوز کی تلاش میں رہتا ہے گزشتہ سال ہم نے پشین میں جلسہ کیا جس میں پچاس ہزار افرادشریک تھے مگر اس کی کوئی کوریج نہیں کی گئی ۔
سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں کئی سال سے میڈیا کے نمائندوں کو مشکلات کا سامنا ہے میڈیا پہ حملے ہورہے ہیں گزشتہ روز روزنامہ جنگ اور دی نیوز کے تحقیقاتی رپورٹر احمد نورانی پر حملہ ہوا تربت میں بکسٹال پر بم حملہ ہوا جس میں چھ افراد زخمی ہوئے ہمارے علاقے میں مسلح تنظیموں نے اخبارات کی ترسیل بند کر رکھی ہے۔
ایک جانب ہماری باتیں ہمارے عوام تک نہیں پہنچتیں تو دوسری طرف بندوق کے ذریعے اخبارات کی ترسیل روکی جارہی ہے احمد نورانی پر حملے سے یہ پیغام دیا گیا کہ جو بھی تحقیقاتی رپورٹنگ کرے گا اس کے ساتھ یہی ہوگا ۔
الیکٹرانک میڈیا کی جانب سے بلوچستان کو نظر انداز کرنے سے متعلق ہم نے سی پی این ای کے وفد کو ان کے کوئٹہ کے دورے کے دوران بھی آگاہ کیا تھا پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ الیکٹرانک میڈیا بلوچستان کو مکمل طو رپر نظر انداز کررہا ہے نہ تو اسمبلی اور نہ ہی سیاسی جماعتوں کو کوریج دی جاتی ہے ۔
حال ہی میں اسلام آباد میں ہماری جماعت کے زیراہتمام جلسہ ہوا جس میں ہمارے قائد محمودخان اچکزئی سمیت دیگرلیڈرشپ موجود تھی ہزاروں افراد کے اس اجتماع کی کوریج کے لئے اگرچہ ٹی وی چینلز کے کیمروں کی بڑی تعداد موجود تھی مگر کسی چینل پر ایک منٹ کی بھی کوریج نہیں دی گئی بلکہ محمودخان اچکزئی سے صحافیوں کی جانب سے استدعا کی گئی تھی کہ وہ اردو میں تقریر کریں ۔
اردو میں خطاب کے باوجود بھی کوئی کوریج نہیں دی گئی بلکہ ٹی وی چینلز کی جانب سے دو تین مخصوص پارٹیوں کی کوریج کی جاتی ہے جو ناقابل قبول ہے اس مسئلے پر آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے یا پارلیمانی لیڈرز بیٹھ کر آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں ۔
جمعیت علماء اسلام کے مفتی گلاب خان کاکڑ نے کہا کہ ہمارے ساتھ میڈیا کا رویہ نارواہے زیارت کے ضمنی انتخاب میں ہمارے مقابلے میں ایک اخبار کی جانب سے ایک جماعت کو روزانہ اتنی کوریج دی جاتی تھی کہ شاید اس کی اسمبلی میں بہت بڑی نمائندگی ہے مگر جب نتائج آئے تو اس جماعت کے بمشکل چند سو ووٹ تھے۔
اسی طرح ہمارے قائد مولانا فضل الرحمان کا کوئٹہ میں گزشتہ دنوں بہت بڑا جلسہ ہوا مگر اسے ٹی وی پر کوریج نہیں دی گئی جبکہ دوسری جماعتوں کے جلسوں کو گھنٹوں گھنٹوں کوریج دی جاتی ہے ایک اخبار میں بھی ہماری جماعت کے مقابلے میں چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو بہت زیادہ کوریج دی جاتی ہے اگر یہ سلسلہ ترک نہ ہوا تو ہم مذکورہ اخبار کے بائیکاٹ پر بھی غور کرسکتے ہیں ۔
جمعیت العلماء اسلام کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ چند بڑی سیاسی جماعتوں کا ٹی وی چینلز پر اثر ہے اور وہ چینلز انہی جماعتوں کی کوریج کرتے ہیں عمر ان خان ٹی وی چینلز کے ذریعے سیاسی جماعتوں کے قائدین کی کردار کشی کررہے ہیں ہر چینل پر ان کی اور ان کی جماعت کی کوریج ہوتی ہے باقی نظر انداز ہیں جو افسوسناک ہے ۔
میڈیا پر یا تو بندوق یا پیسے والوں کا دباؤ ہے جبکہ ہم یہ دونوں نہیں کرسکتے ہمیں اس سلسلے میں کوئی لائحہ عمل طے کرنا ہوگا ۔نیشنل پارٹی کے میر خالد لانگو نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہے اور ہم بار بار کوریج نہ ہونے کا گلہ کرتے آئے ہیں ۔
ٹی وی چینلز تو صرف کراچی اور لاہور تک محدود ہیں ہمیں کوئٹہ میں موجود میڈیا کے دوستوں سے کوئی گلہ نہیں ہم نے جب جہاں درخواست کی وہ کوریج کے لئے آتے ہیں مگر ان کے کراچی لاہور اسلام آباد میں بیٹھے میڈیا ہاؤسز کے ذمہ دار ان ہمیں کوئی کوریج نہیں دیتے گزشتہ دنوں ہماری جماعت اور حال ہی میں جمعیت العلماء اسلام ، اے این پی اور اسلام آباد میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے جلسے کئے مگر ان کی کوئی کوریج نہیں ہوئی ۔
دوسری طرف کراچی لاہور میں سبھی جماعتوں کے جلسوں کو مکمل کوریج دی جاتی ہے ہمیں پرنٹ میڈیا سے ہمدردی ہے صوبے میں صحافی شہید ہوئے ہیں انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں مگر ایک گلہ ہے کہ میرے کیس سے سندھ اور پنجاب میں کئی گنا بڑے کیسز ہیں مگر میرے کیسز کی ہر سماعت پر اسے میگا کیس قرار دیا جاتا ہے ۔
صوبائی وزیر ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہا کہ الیکٹرانک میڈیا کی جانب سے نظر انداز کرنے کا سلسلہ افسوسناک ہے پھر ہمارے قائدین سے یہ بات بھی کی جاتی ہے کہ وہ پشتو اور بلوچی کی بجائے اردو میں تقریر کریں جو درست نہیں ہے ۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی جدوجہد کرنے والے اکابرین نے میڈیا کی آزادی کے لئے بھی جدوجہد کی انہی کی جدوجہد سے میڈیا کو آزادی ملی مگر اب ہمیں نظر انداز کیا جاتا ہے جو بہتر نہیں ہے پھر ہمیں اپنی زبانوں کی بجائے اردو میں بولنے کا بھی کہا جاتا ہے پریس کی آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور جنہوں نے جمہوریت کے لئے قربانی نہیں دی ان کو تو پوری کوریج دی جاتی ہے ۔
صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ میڈیا کا امتیازی سلوک ناقابل برداشت ہے عمران خان کی جماعت کسی سے زیادہ محب وطن یا بڑی سیاسی جماعت نہیں مگر پورا میڈیا عمران خان کو کوریج دے رہا ہے عمران خان جب کرکٹ کھیلتے تھے تب ہم آمروں کے خلاف جدوجہد کررہے تھے ہمارے اکابرین جیلوں میں تھے ۔
اس صوبے میں خان شہید انگریز کے دور میں استقلال اخبار لائے سیاسی جماعتوں کی قربانیوں اور جدوجہد کو نظر انداز کرکے ان سے امتیازی سلوک کرکے صرف ایک جماعت کو کوریج دینا درست نہیں مذکورہ جماعت جس طرح ڈی چوک پر رسوا ہوئی اس کا پورے ملک میں یہی حال ہونا چاہئے ۔
انہوں نے کہا کہ اگر الیکٹرانک میڈیا ہمیں کوریج نہیں دیتا تو کم سے کم پی ٹی وی جو سرکاری چینل ہے اس کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ اسمبلی کے اجلاس کی لائیو کوریج کرے اور ارکان اسمبلی جو بات کرتے ہیں وہ عوام تک پوری پوری پہنچنی چاہئے ۔
ہم سیاسی اورجمہوری لوگ ہیں اور ہم نے جمہوری نظام کا بھرپور دفاع کیا ہے موجودہ اسمبلی کو عوام نے پانچ سال کے لئے منتخب کیا ہے اور اس کو یہ مدت پوری کرنے کا حق ہے ۔
انہوں نے کہا کہ پہلے احتساب اور پھر انتخاب کا نعرہ بلا جواز ہے احتساب کا اختیار عوام کے پاس ہے اور وہ انتخابات میں اپنے ووٹ کے ذریعے سیاسی جماعتوں کا احتساب کرسکتے ہیں انہوں نے زور دیا کہ میڈیا اپنا امتیازی رویہ ترک کردے۔
اس موقع پر سپیکر راحیلہ حمید درانی نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا کے حوالے سے ارکان نے اپنے تحفظات کااظہار کیا ہے کہ چند جماعتوں کو کوریج دی جاتی ہے اور دوسروں کو نظر انداز کیا جاتا ہے ۔انہوں نے سیکرٹری انفارمیشن کو ہدایت کی کہ وہ وفاقی سیکرٹری انفارمیشن سے رابطہ کرکے ان کو ارکان کے تحفظات سے آگاہ کریں اور رپورٹ پیش کریں ۔
اجلاس میں نیشنل پارٹی کی یاسمین لہڑی نے مشترکہ قرار دادایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ 2001ء میں ملک کے چاروں صوبوں میں صوبائی فنانس کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا مقصد وسائل کی تقسیم کو ضلعی سطح پر مخصوص فارمولے کے تحت اپنے اپنے صوبوں میں عملدرآمد کرانا اور صوبے کے تمام اضلاع میں لوکل گورنمنٹ کو موثر اور ترقیاتی ٹرانسفرز اور کرنٹ ٹرانسفرز کو یقینی بنانا تھا تاکہ مذکورہ گرانٹ کے ذریعے پورے ضلع کے اندر غربت اور آمدنی کی نابرابری کو کم کرنے اور اقتدار کو نچلی سطح پر منتقل کیا جاسکے۔
اس سلسلے میں ملک کے باقی تمام صوبوں نے صوبائی فنانس کمیشن پر مکمل طو رپر عملدرآمد شروع کردیا ہے جبکہ صوبہ بلوچستان میں صوبائی فنانس کمیشن پر تاحال کوئی عمل درآمد نہیں ہوا ہے ۔
قرار داد میں صوبائی حکومت سے سفارش کی گئی ہے کہ وہ صوبے میں فنانس کمیشن کو جلدا زجلد فعال کرکے اضلاع کے مابین وسائل کی مناسب تقسیم کو یقینی بنائے تاکہ غربت میں کمی اور اضلاع کی سطح پر ترقی ممکن ہوسکے۔
انہوں نے قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں پراونشل فنانس کمیشن کا قیام اب تک عمل میں نہیں لایا گیا جبکہ دوسرے صوبوں نے پراونشل فنانس کمیشن بنانے کے بعد اس کا نوٹفیکیشن جاری کیا اور اس پر کام بھی جاری ہے ۔
پراونشل فنانس کمیشن نہ ہونے کی وجہ سے پسماندہ اضلاع میں ترقیاتی کام نہیں ہوپاتے اور صوبے کے دور دراز علاقوں میں کسی قسم کا عوام کوفائدہ نہیں ہورہاجس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ چل رہا ہے جو گلہ ہم وفاق سے کرتے ہیں وہ ہمارا اپنا صوبہ ہمارے ساتھ کررہا ہے ۔
لہٰذا صوبائی فنانس کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے مسلم لیگ(ن) کے میر عاصم کرد گیلو نے کہا کہ یہ کمیشن ماضی میں ہوا کرتا تھا جب ناظمین کا دور تھا اب یہ کمیشن بنانے کا مطالبہ کس سے کیا جارہا ہے ۔
اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے بھی ان کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ جب ناظمین کا دور ہوا کرتا تھا تو فنڈز تقسیم ہوتے تھے جبکہ اب اس قرار داد کو منظور کرنے کی ضرورت نہیں سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ صوبائی مشیر کی جانب سے یہ مسئلہ ایوان میں لایا جارہا ہے حالانکہ اسے کابینہ میں لیجانا چاہئے تھا اب جبکہ ساڑھے چار سال گزر چکے ہیں موجودہ اسمبلی آخری بجٹ بھی منظور کرچکی ہے ۔
اب کمیشن بنانے کا مقصد کیا ہے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے مجیدخان اچکزئی نے کہا کہ تینوں صوبوں میں کمیشن کا نوٹیفکیشن ہوچکا ہے صرف ہمارے صوبے میں اب تک یہ نوٹیفکیشن نہیں ہوپایا ۔
مجید اچکزئی کی تقریر کے دوران اپوزیشن رکن مولوی معاذ اللہ نے کورم کی نشاندہی کردی جس پر اسپیکر نے پانچ منٹ تک گھنٹیاں بجانے کی ہدایت کی ۔ گھنٹیاں بجانے کے باوجود کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس 31اکتوبر کی شام4بجے تک ملتوی کردیاگیا۔