وفاقی حکومت نے ایک بار پھر سندھک پروجیکٹ یعنی سونے اور تانبے کے ذخائر کو ایک سال کے لئے چینی کمپنی کے حوالے کردیا۔ یہ چینی کمپنی ایم سی سی کی مرضی ہے کہ سونا اور تانبے کو پہلے چین لے جائے اور بعد میں سونا اور تانبہ اور دوسری دھاتوں کو الگ کرے اور بعد میں اس کو مقامی مارکیٹ میں فروخت کرے ۔
چینی کمپنی نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ سندھک میں ہی سونے کو دوسری دھاتوں سے الگ کرنے کا پلانٹ لگائے گی اور پاکستان کی حکومت اور عوام کو معلو م ہوگا کہ کتنا سونا اور دوسری دھاتیں حاصل ہوئیں اور ان کی مالیت کیا ہے ۔ روز اول سے چینی کمپنی نے وعدہ خلافی کی اور وہ پلانٹ اب تک نہیں لگائی اور بلسٹر کاپرBlister Copperکو پروسیس کے لیے چین بھیجتا رہا ہے ۔
گزشتہ پندرہ سالوں سے سندھک پروجیکٹ کی صورت میں بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار جاری ہے ۔ بلوچستان کے عوام کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا ، اوربلوچستا ن کی حکومت کو صرف ڈھائی فیصد کی رائلٹی پرٹرخا دیا گیا ۔
ایم سی سی نے اربوں ڈالر کمانے کے بعد بھی اپنی کارپوریٹ ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔ اتنے بڑے سونے اور تانبے کے پلانٹ کے بعد بھی چاغی اور خصوصی طورپر سندھک کے گردونواح میں کسی قسم کے تبدیلی کے آثار نظر نہیں آتے، جو کچھ کام ہوا وہ حکومت نے کیا، چینیوں نے وسائل کی لوٹ مار کی ‘ یہاں تک کہ سینکڑوں کارکن چین سے لائے گئے اور مقامی افراد کو روزگار کے حق سے محروم رکھا گیا۔
چین سے سینکڑوں کارکنوں کوسندھک لانا ایک معاشی جرم ہے جس میں حکومت برابر کی شریک ہے کیونکہ حکومت نے ہی چینی کمپنی کو اس بات کی اجازت دی تھی کہ وہ سارے افراد چین سے لائے اور مقامی افرادکو روزگار سے محروم کرے۔ جتنے بھی پاکستانی کارکن سندھک میں کام کررہے ہیں ان سب کو ڈی سی نے بھرتی کیا تھا اور پاکستان بھر سے اہل کارکنوں کو ملازمتیں دیں تھیں ۔
چینی کمپنی نے ان کی اکثریت کو ملازمت سے بر طرف کردیا اور ان کی جگہ پر چینی کارکن لائے گئے ۔ ہم نے ان کالموں میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ بلوچستان کی صوبائی حکومت سندھک پروجیکٹ خودچلائے کیونکہ اس کیلئے پاکستان میں کارکن موجود ہیں۔
جب سیندک پلانٹ مکمل ہوا تھا تو دو ماہ کی ٹرائل پیداوار پاکستانی کارکنوں نے حاصل کی ،جسے بین الاقوامی منڈی میں پچاس کروڑ روپے میں فروخت کیا گیا ۔ یہ نواز شریف سابقہ وزیراعظم اور چوہدری نثار علی متعلقہ وزیر تھے جنہوں نے سندھک کا دورہ کیا۔
چینیوں کو بلوچستان سے بے دخل کرنے کے آرڈر نکالے ،اس طرح سونے اور تانبے کے کان کو وزیراعظم پاکستان کے حکم سے بند کردیا گیا جو بلوچستان کے عوام کے معاشی قتل کے مترادف تھا۔ شاید یہ اسلام آباد کی پالیسی ہے کہ بلوچستان کو پسماندہ ‘ غریب اور بھوکا رکھا جائے، اس کے ہر ایک ترقیاتی عمل میں رخنہ ڈالا جائے ۔ گوادر اور کچھی کینال اس کی واضح مثالیں ہیں ۔
ہم نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ اچھے اور ایماندار افسران پر مشتمل ایک ٹیم بنائی جائے جو معاشی منصوبوں کی نگرانی کرے ۔۔ایسی ہی ٹیم سندھک چلائے اور چینیوں کو سندھک سے جتنی جلد ی ممکن ہو فارغ کیاجائے ،اوراس بات کو یقینی بنایا جائے کہ سندھک سے حاصل ہونے والی آمدنی ‘ بشمول کارپوریٹ ٹیکس کے، حکومت بلوچستان کے حوالے کیے جائیں۔
اگر یہ اسکیم کامیاب ہوجائے تو ریکوڈک اور سندھک پروجیکٹ کو ضم کیاجائے اور حکومت بلوچستان سندھک پلانٹ کو توسیع دے تاکہ اربوں ڈالر کی آمدنی صرف اور صرف بلوچستان کی حکومت اور عوام کے لئے ہو ۔ وفاقی حکومت پندرہ سال سے اس کی آمدنی پر قابض ہے اور چینی کمپنی بھی بے دردی سے وسائل کو لوٹ رہی ہے اور اپنی کارپوریٹ ذمہ داریاں پوری نہیں کررہی۔
ہماری وفاقی حکومت سے گزارش ہے کہ چین سے دوستی کی خاطر بلوچستان کے عوام کے وسائل قربان نہ کریں گزشتہ پندرہ سالوں سے چینیوں کا کردار اور عمل بلوچستان میں قابل ستائش نہیں ہے۔ اس حوالے سے صوبائی حکومت کو چائیے کہ ہر معاملے میں جی حضوری سے کام نہ لے۔
اپنے صوبے کے حقوق کے لیے بلادھڑک سخت موقف اپنائے، سندھک معاہدہ منسوخ کریں اور اسے خود چلائیں اور سارا منافع خود رکھیں، اگر یہ نہیں ہوسکتا تو کم سے کم بلوچستان کا حصہ تو بڑھائیں ۔ کیا سندھک پروجیکٹ کے خاتمے تک صرف ڈھائی فیصد رائلٹی پر ہی اکتفا کریں گے ۔