|

وقتِ اشاعت :   November 1 – 2017

روز اول سے بلوچستان میں نوکر شاہی مقامی اخبارات اورمیڈیا کو نا پسند کرتی رہی ہے اور اس کے برعکس کارپوریٹ سیکٹر کے اخبارات کی بھرپور حمایت کی ہے۔وجہ یہ ہے کہ بعض اخبارات نے آزادی صحافت اور آزادی رائے کو ترجیح دی اور کبھی بھی رہنماؤں اور حکمرانوں کی چاپلوسی نہیں کی اور عزت و احترام کا دامن بھی کبھی نہیں چھوڑا، لوگوں کی پگڑی نہیں اچھالی ‘ اور نہ ہی وہ اشتہارات قبول کیے جس میں کسی کی تضحیک کا پہلو نکلتا ہو ۔

یہی مقامی اور انتہائی ذمہ دار اخبارات ہیں جنہوں نے بلوچستان کی روایات کا نہ صرف پاس رکھا بلکہ عوام اور ان کے نمائندوں کی ہر ممکنہ مدد کی۔ بعض مقامات پر اچھی حکمرانی کے مفید مشورے بھی دئیے اور کبھی بھی غیر ذمہ داری کا ثبوت نہیں دیا ۔

صرف اور صرف عوام الناس کی خدمت کی ۔ ان ذمہ دار اور انتہائی پروفیشنل اخبارات کے خلاف کسی قسم کی شکایات نہیں آئیں۔ بلوچستان بھر میں ان اخبارات کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ 

ان اخبارات سے جُڑے معروف صحافیوں کو عزت دی جاتی ہے اور ان کاانتہائی خوش دلی سے استقبال کیاجاتا ہے ، ان میں حکومتی اور عسکری ادارے شامل ہیں۔ جہاں تک خبروں کی بات ہے ان کو صرف اور صرف پیشہ ورانہ انداز میں چھاپا جاتا ہے ۔

صحافت چونکہ سرعت کے ساتھ لٹریچر کا نام ہے یہاں غلطی کی گنجائش بہت رہتی ہے یا غلط فیصلے جلدی ہوتے ہیں اس میں جان بوجھ کر پروپیگنڈا مہم نہیں چلائی جاتی اور نہ ہی کسی کی تضحیک جان بوجھ کر کی جاتی ہے ۔

یہ بلوچی روایات ہیں کہ دشمن گھر آجائے تو اس کی آؤ بھگت اچھے مہمان کی طرح ہوتی ہے ۔مقامی اخبارات کی صحافت انہی اصولوں کے گرد گھومتی ہے دولت کی حرص وہ لوگ کرتے ہیں جو مقامی رسم و رواج اور روایات کو نہ سمجھتے ہیں اور نہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس کے باوجود بھی حکومت نے نامعلوم وجوہات کی بناء پر اور بغیر کسی گناہ کے ہمارے اشتہارات بند کردئیے ۔ مئی کے وسط سے لے کر اکتوبر کے آخر تک ہمارے اشتہارات میں اسی فیصد کمی کی گئی اور اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی ۔ وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کو اکثر یہ شکایت رہتی ہے کہ ان کی پبلسٹی کم کی جاتی ہے۔ 

وجہ یہ ہے کہ ان کے ماتحت افسران کو اپنے مفادات کے تحفظ سے فرصت نہیں تو ان کی تشہیر پر توجہ کون دے گا، بڑے افسران جن کی یہ ذمہ داری ہے گزشتہ بیس سالوں سے وزیراعلیٰ ہاؤس میں براجمان ہیں ۔سرکاری کام کے لئے شاید ایک آدھ گھنٹہ نکال لیتے ہیں پھراس کے بعد باقی دفتر ما تحت کے حوالے ہے ۔ 

ہمارے خلاف کارروائی میں کرپٹ عناصر کا ہاتھ ہے۔ دوسری طرف سیکورٹی اداروں نے کسی نہ کسی بہانے ہمارے خلاف کارروائی شروع کررکھی ہے سیکورٹی کے نام پر ہمارا دفتر24گھنٹے محاصرے میں ہے۔ 

سیکورٹی پر ما مور اہلکار ہمارے ملازمین کو تنگ کررہے ہیں ۔جب ہماری متعلقہ افسران سے ملاقات ہوگی ہم اپنی شکایات درج کرائیں گے اور ان پر باور کرائیں گے کہ یہ آزادی اظہار رائے پر قدغن ہے ۔ اس لیے ہم نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اپنے دونوں اخبارات کی اشاعت معطل کریں۔ 

اس کی بنیادی وجہ حکومت کی جانب سے ہمارے اخبارات کا معاشی قتل ہے اور دوسری جانب ہمارے ساتھ کام کرنے والوں کی روزانہ تضحیک ہے۔ اس حوالے سے ہم عنقریب ڈپٹی کمشنر کوئٹہ سے رجوع کررہے ہیں کہ اگر ہماری شکایات کا ازالہ نہیں کیا گیا تو ہم غیر معینہ مدت کے لئے اپنے اخبارات کی اشاعت معطل کریں گے ۔