قلات: خان میر احمد یار خان پریس کلب قلات کا ایک اہم اجلاس پریس کلب قلات میں منعقد ہوا اجلاس کی صدرات پریس کلب قلات کے صدر در محمد مینگل نے کیا ۔
اجلاس میں پریس کلب کے تمام ممبران نے شرکت کی اجلاس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ بعض کلعدم تنظیموں کی جانب سے میڈیا ہاؤسز صحافیو ں اور اخباری ورکروں کو دھمکیوں کے بعد قلات کے تمام صحافی اپنے صحافتی سرگرمیوں کو معطل کرینگے اور پریس کلب کو غیر معینہ مدت کے لیئے بند کر نے کا علان کر تے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ قلات کے صحافی سوشل میڈیا پر چلنے والے کسی بھی خبر کا زمہ دار نہیں ہو نگے ،علاوہ ازیں بلوچستان میں میڈیا کے بائیکاٹ کے حوالے سے نیشنل پریس کلب پنجگور رجسٹرڈ کا جنرل باڈی اجلاس زیر صدارت برکت مری کے منعقد ہوا جس میں ادارے کے تمام ممبران صحافیوں نے شرکت کی اور اپنے اپنے تجاویز اور آراء دیئے ۔
ا س موقع پر سیکرٹری جنرل یاسین بلیدی نے صورتحال کا تجزیاتی رپورٹ پیش کی ،تمام تجاویز اور آرا رپورٹ کا جائزہ لیتے ہوئے جنرل باڈی نے نیشنل پریس کلب پنجگور کو تالا اور تمام صحافتی سرگرمیاں غیر معینہ مدت تک بند رکھنا کا فیصلہ کیا گیا ۔
اس موقع پر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ بلوچستان کا حالات صحافیوں کیلئے دن بدن دشوار ہوتے جارہے ہیں 24اکتوبر میں مختلف مسلح علیحدگی پسند تنظیموں کی جانب سے میڈیا بائی کاٹ مہم اور بقول انکے مبینہ نظرانداز کے انہوں نے میڈیا پہ الزام عائد کرتے ہوئے کہاہے کہ کنٹرولڈ میڈیا سرکاری پروگرام کی تشہری تک محدود ہے میڈیا نے بلوچستان کے حالات و اقعات پر چشم پوشی اختیار کی ہوئی ہے ۔
اس بنا پر بلوچستان کے عوام کو ایسے کنٹرولڈ میڈیا کی کوئی ضرورت نہیں ہے ،کالعدم بلوچ علیحدگی پسند مسلح تنظیموں کی مختلف سوشل میڈیا اور اخبارات میں 22اکتوبر سے میڈیا کی بائیکاٹ کا فیصلہ کیا گیا بعدمیں صحافیوں کی اسرار پر انہوں نے دو دن مذید بڑھائے ۔
24اکتوبر 2017کو انہوں نے باقائدہ عملی اقدام شروع کرنے کا اعلان کیا جس کی وجہ سے 23اکتوبر کو پنجگور میں اخبارات کی ترسل کی عمل کو روک دیا گیا اور پنجگور میں 23اکتوبر سے آج بروز(جمعہ) 3/11/2017بند ہے اور 24اکتوبر سے پنجگور کے تمام اخباری دفاتر نیوزایجنسیاں بند ہوگئے جن میں پاکستان کے بڑے بڑے اخبارات فروخت ہوتے تھے اور ہاکروں نے باقائدہ اخبار بیجنے سے انکار کردیا ،بلوچستان کے مختلف علاقوں میں میڈیا ہاوسسز پر حملے کے بعد نیشنل پریس کلب پنجگور کے تمام صحافتی سرگرمیاں محدود ہوگئی۔