|

وقتِ اشاعت :   November 4 – 2017

اسلام آباد:  ایوان بالا میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے کہا ہے کہ کالجز اور یونیورسٹیوں کے طلباء بھی انتہا پسندی میں ملوث ہیں تعلیمی نصاب کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ جمعہ کو ایوان بالا میں سینیٹر عتیق شیخ کی جانب سے طلباء کو انتہا پسند نظریات اور لٹریچر کی دستیابی کے ذرائع کی نشاندہی کی ضرورت ہے ۔

سکیورٹی اور تعلیمی اداروں کے کردار پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے عثمان کاکڑ نے کہا کہ تعلیمی اداروں کے نصاب کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔کالجوں‘ یونیورسٹیوں میں تعلیم یافتہ لوگ بھی انتہا پسندی میں ملوث ہیں۔ بعض مدارس میں بھی انتہا پسندی کی تربیت دی جاتی ہے۔ تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کو منشیات کی طرف راغب کیا جاتا ہے۔

تعلیمی نصاب کا جائزہ لینے کے لئے پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے دینی مدارس میں انتہا پسندی مضمون کے طورپر پڑھائی جارہی ہے ایسے مدارس کی تعداد بہت کم ہے لیکن ہمیں ایسے تعلیمی اداروں کو قانون کے دائرے میں لانا ہوگا تعلیمی اداروں میں منشیات فروخت کی خبریں زیر گردش ہیں جبکہ سکیورٹی کا رونا تو ہمارے وفاقی دارالحکومت سے لیکر کوئٹہ بلوچستان تک اداروں کی ضرورت بن چکی ہے ۔ سسی پلیجو نے کہا کہ بعض اساتذہ کے مائنڈ سیٹ بڑے عجیب سے ہوتے ہیں۔

مخصوص سوچ اور ذہنیت پیدا کرنے کے لئے کام کیا جارہا ہے۔ہمیں متوازن معاشرے کی ضرورت ہے تعلیمی اداروں میں کالعدم ادار ے اپنی جڑیں پھیلا چکے ہیں طلباء جذباتی پرجوش ہوتے ہیں اس لئے جلدی نئی چیزوں کی جانب راغب ہوجاتے ہیں ہمارے تعلیمی اداروں میں لٹریچر فیسٹول کا انعقاد ایک اچھا رحجان ہے جس سے طلباء کو تعلیمی سرگرمیوں کی طرف راغب کیا جاسکتا ہے مدارس میں لاؤڈ سپیکر پر پابندی لگا گئی لیکن تعلیمی اداروں میں پڑھانے والے اساتذہ کے نظریات سے تاحال آگاہی حاصل نہیں کی جاسکتی ۔

سینیٹر خوش بخت شجاعت نے کہا کہ ہمیں ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنی چاہیے۔ اخلاقی اقدار کو پروان چڑھانے کے لئے تعلیمی اداروں کا کردار اہم ہے۔

مساجد میں جدید سائنس کے علوم پڑھائے جائیں۔ مساجد کو تعلیم کا مرکز بنایا جائے۔ مساجد کی صورت میں بہترین انفراسٹرکچر موجود ہے۔ ایک طرف تعلیمی اداروں میں ڈرگ مافیا پل رہا ہے۔

یہ تعلیمی ادارے اخلاقی پسماندگی ‘ بداخلاقی کی طرف لے کر جارہے ہیں۔ دوسری جانب منافرت اور فرقہ وارانہ دوریاں پھیلائی جارہی ہیں۔

1947ء کے پاکستان سے آج کا پاکستان یکسر مختلف ہوچکا ہے جہاں ایک طرف ہمارے ملک نے بہت ترقی کی ترقیاتی منصوبے جہاں ایک طرف ہماری عوام کی بنیادی ضروریات ہیں وہیں ۔

دوسری طرف ہماری قوم اور نوجوان اخلاقی طورپر پستی کی طرف جارہے ہیں جنہیں سنبھالنے کیلئے ہماری درسگاہوں کو فعال کردار دا کرنا ہوگا مساجد کو پانچ وقت نماز کے علاوہ بھی درس دینا چاہیے کیونکہ ایسا ہو کہ بغیر اوقات میں مساجد میں تعلیمی ضروریات پوری کی جاسکیں ملک بھر میں سکول جامعات موجود ہوں نہ ہوں ۔

مساجد ہر جگہ موجود ہیں اور وہاں ے فر ش ، پنکھے اور پرسکون ماحول موجود ہے وہاں بیٹھ کر سائنس ریاضی اور فزکس پڑھائی جاسکتی ہے کالج اور یونیورسٹیز میں جاری رکھے جانے والی ایکٹویٹیز شرمناک ہیں مذہبی انتہا پسندی اور منافرت سے معاشرے کو بچانے کیلئے اپنی درسگاہوں پر توجہ دینا ہوگی آگے بڑھ کر اپنے تعلیمی درسگاہوں میں پڑھائے جانے والے نصاب پر خصوصی توجہ دینا ہوگی اخلاقیات کی ترویج کیلئے ہمارے میڈیا کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانا ہوگی ۔

سینیٹر مولانا عطاء الرحمن نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ کالج‘ یونیورسٹیوں میں جس قسم کی تربیت دی جارہی ہے اس کا ذمہ دار کون ہے‘ مشال ‘ سابق گورنر کے قتل میں کیا مدارس کے لوگ ملوث تھی غریب کا بچہ رل رہا ہے‘ بڑوں کے بچے باہر سے پڑھ کر آتے ہیں‘ ان کو ملازمتیں بھی مل جاتی ہیں‘ میرٹ کی دھجیاں اڑائی جائیں گی تو غریبوں کا کیا بنے گا دینی مدارس کے نوجوان ملک‘ معاشرے اور انسانیت سے محبت رکھنے والے ہیں اور معاشرے میں مذہی اقدار ان کی وجہ سے زندہ ہیں۔

سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ قوم مختلف طبقوں میں بٹی ہوئی ہیں۔ مخصوص فکر کو آگے بڑھانے کے لئے طلباء کی تربیت کی جاتی ہے۔ تعلیمی اداروں میں طلباء4 کو لٹریچر کے ذریعے ترغیب دی جاتی ہے۔ فرقہ واریت آخری حدوں کو چھو رہی ہے تعلیم انسان کو حیوانیت سے انسانیت کی طرف لاتی ہے ۔

ہمارے معاشرے کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا گیا ہے میرٹ کی حق تلفیاں اور پیسے کے حامل افراد کو تو نوکریاں اور داخلے مل جاتے ہیں لیکن غریب ہمیشہ محروم رہتا ے صرف دینی مدارس کو الزام دینا غلط ہے میں یقین سے کہتا ہوں اس وقت ملک میں ایک بھی مدرسہ ایسا نہیں جہاں انتہا پسندی کی ترغیب دی جاتی ہو ہمارے علماء کی طرف سے ایسے مدارس کی پشت پناہی کی جاتی ہے ہمارے سکول کالج اور جامعات میں جو تعلیم دی جا رہی ہے وہ معاشرے کو تباہی کی طرف لے جارہی ہے ۔