وزیراعلیٰ نے ایک بار پھر حکم صادر کیا ہے کہ گوادرمیں پینے کے پانی کا مسئلہ حل کیاجائے ۔گوادر کو پاکستان میں شامل ہوئے تقریباً60سال مکمل ہونے والے ہیں ۔ ابتداء سے ہی پاکستان کے حکمرانوں کو گوادر اور اس کے عوامی مسائل سے کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی ۔
اس لیے چند ہزارنفوس پر مشتمل شہر کے پانی ‘ بجلی ‘ صحت و صفائی ‘ نکاسی آب ‘ تعلیم اور صحت کے مسائل حل نہیں ہوئے۔ اورجب سے پاکستانی حکمرانوں پر یہ انکشاف ہوا کہ گوادر اس خطہ کی اہم ترین جگہ ہے جہاں پر گہری بندر گاہ تعمیر کی جاسکتی ہے تو پھر گوادر بیانات اور اشتہارات تک کی حد تک تو توجہ کا مرکز بنا لیکن اس کے مسائل تو دور کرنا دور کی بات، کوئی ان پر بات کرنے کو بھی تیار نظر نہیں آتا۔
مشرف دور حکومت میں گوادر بندرگاہ کی تین برتھ بنائے گئے تو ملک بھر کے ٹھگوں نے ہاؤسنگ اسکیموں کے نام پر معصوم لوگوں کو لوٹنا شروع کیا ۔ ابھی تک یہ مافیا اربوں روپے بٹو رچکی ہے ۔ حکومت کو معلوم ہے کہ اگلے پچاس سالوں تک اس نے گوادر کی ترقی میں رکاوٹیں ڈالنی ہے اور موجودہ نسل اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکے گی۔ گوادرکو پانی کی فراہمی کا پہلا منصوبہ نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت نے دیا ۔
دریائے دشت کے دہانے پر گوادر کو صاف پانی پمپ شروع کرنا کردیا ۔ اس کا افتتاح سابق گورنر میر غوث بخش بزنجو نے 1972میں کیا تھا چونکہ مشینری کی دیکھ بھال اور اس کی مرمت سے کرپٹ افسران کو کبھی دلچسپی نہیں رہی ، اس طرح پمپ پانی کے بجائے ریت پمپ کرتا رہا جس سے ساری مشینری تباہ ہوگئی۔
اس کے بعد نیس پاک جو وفاقی حکومت کے ماتحت ایک خودمختار ادارہ ہے، نے غیر معیاری تعمیرات کیں جس کی وجہ سے انکارہ کور ڈیم پچاس سال کے بجائے پندرہ سالوں میں ناکارہ ہوگیا۔
انکارہ کو رڈیم کے اندر سے ریت صاف کردیا جاتا تو شاید گوادر کے لئے پانی جمع کیا جا سکتا تھا لیکن حکومت نے کوئی کوشش نہیں کی کہ انکاڑہ کور ڈیم کو بحال کیاجا ئے اور اس سے ریت کو ٹریکڑوں کے ذریعے نکالاجائے تاکہ پانی زیادہ مقدار میں جمع کیاجا سکے ، نالائق اور نا اہل حکومت یہ بھی نہیں کر سکی اور جان بوجھ کر اس کو تباہ کرنے دیا گیا تاکہ عوام الناس پریشان ہوں۔
اب وفاقی اور صوبائی حکمران بلندو بانگ دعوے کررہے ہیں لیکن حقیقتاً 2002کے بعد سے گوادر پورٹ میں کوئی ترقی نہیں ہوئی ۔جنرل پرویزمشرف نے ساحلی شاہراہ تعمیر کی لیکن گوادر کا اےئر پورٹ، اس کا بجلی گھر اور گوادر کو ساحلی شاہراہ سے ملانے کیلئے نہ سڑک بن سکی اور نہ ہی ریلوے یارڈ۔
گوادر پورٹ اور صنعتی مرکز کو چلانے کے لئے پانی اور بجلی کی ضرورت ہوگی۔ بلوچستان اور سندھ میں وسیع کوئلے کے ذخائر موجود ہیں لیکن بلوچستان کے بجلی گھر کو درآمد شدہ کوئلہ سے چلایاجائے گا۔
یہ وفاقی حکمرانوں کا فیصلہ ہے کہ ملک بھر کے بجلی گھر چینیوں کی مرضی کے مطابق درآمد شدہ کوئلے سے چلائے جائیں حالانکہ گوادر جس کے معنی ہیں ’’ ہوا کا دروازہ ‘‘ وہاں پر ونڈ انر جی کو استعمال میں لایا جاسکتا ہے جس سے پورے مکران کی بجلی کی ضروریات پوری ہونگی ۔ شاید چینی منصوبوں میں چمک کچھ زیادہ ہے اور ہر موسم کے دوست کو خوش رکھنا بھی ہے، بلوچستان کے عوام کے فوائد کو نہیں دیکھنا ۔
پانی کے مسئلے کے حل کے لئے جام یوسف کے دور حکومت میں کھارے پانی کو میٹھا بنانے کے دو پلانٹ لگائے گئے ،ایک کو مولانا وزیر جو بی ڈی اے کے وزیر تھے اوردوسرے کووزیر صنعت نے لگایا۔
بلوچستان کے اربوں روپے ان دونوں پلانٹ پر خرچ ہوئے ان کو دس سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے ان سے ایک گلاس پانی بھی حاصل نہیں ہوا ۔ مولانا وزیر کا پلانٹ کہاں گیا اس کو آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی اس سے متعلق خاموشی کیوں ؟ وزیر اعلیٰ کو دوسرے پلانٹ کا بھی دورہ کرنا چائیے تھا اس پر بھی مولانا وزیر نے ایک ارب روپے غریب بلوچستان کے خرچ کیے ۔
ان سب کی صاف اور شفاف تحقیقات ہونی چائییں، کوئی مجرم پایا جائے تو اسے پچاس سال کی جیل کی سزا ہونی چائیے، تاحیات جیل نہیں بلکہ تاوفات جیل کی سزا ہو تاکہ کوئی دوسرا وزیر کرپشن کرنے کا سوچ بھی نہ سکے۔
سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ دریائے دشت کی زیریں سطح پر دوسرا بڑا ڈیم بنایاجائے جہاں پانی کا بڑ اذخیرہ ہو تاکہ گوادر کے عوام کے علاوہ گوادر پورٹ اور صنعتی علاقے کو پانی مل سکے۔ اس کے ساتھ انکارہ کور ڈیم کو دوبارہ کار آمد بنایاجائے تاکہ پورے مکران میں پانی کی ضروریات پوری ہوں ۔